اسلام آباد(آئی این پی )سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے الیکشن کمیشن کے رزلٹ مینیجمنٹ سسٹم پر تحفظات کا اظہار کر دیا ، چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات پر سوالیہ نشان آج بھی ہے، چاہتے ہیں سیاہی اور بیلٹ پیپر کے مسائل اس دفعہ نہ ہوں، الیکشن شفاف ہونے چاہیئں ، ہم نہیں چاہتے کہ جو غلطیاں پہلے ہوئی ہیں وہ دوبارہ ہوں ، الیکشن کمیشن حکام نے کمیٹی
کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک میں 85000 پولنگ اسٹیشن ہیں،پولنگ بوتھ دو لاکھ پچاسی ہزار ہیں،پولنگ عملہ نو لاکھ کے قریب ہے،بیلٹ پیپر واٹر مارک ہوں گے جو جرمنی سے برآمد کئے گئے ہیں،انتخابی مہم کی مانیٹرنگ کے لئے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسرز اور مانیٹرنگ ٹیموں کا اس مہینے کے آخر تک نوٹیفیکیشن جاری کر دیں گے،ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر پچاس ہزار تک کے جرمانے کر سکتا ہے۔پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس سینیٹر سسی پلیجو کی صدارت میں ہوا جس میں ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن ظفر اقبال نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک میں ایک سو چار ملین رجسٹرد ووٹرز ہیں، مرد ووٹر پانچ کڑوڑ خواتین چار کڑوڑ اٹھاون لاکھ ہیں، ملک بھر سے ووٹرز نے درستگیاں کرائی ہیں شناختی کارڈز اور ووٹ ٹرانسفر کی ،انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بارہ سو اعتراضات موصول ہوئے، چھ سو چودہ اعتراضات کو منظور کیس گیا، جبکہ چھ سو چھیاسٹھ مسترد ہوئے ، چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ حلقہ بندیوں پر ابھی تک ہمارے اعتراضات موجود ہیں، رکن کمیٹی مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ لاوارث لوگوں کے اعتراض کے مسترد کر کے دبنگ لوگوں کو ترجیح دی گئی ،پچھلے انتخابات کے بعد بھی الیکشن کمیشن نے مانا تھا غلطیوں کو، اعتراضات کو ختم کرنے کے کیا اقدامات کئے گئے ہمیں بتایا جائے،
ایڈشنل سیکیرٹری الیکشن کمیشن ظفر اقبال کی کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ اسمبلیوں کی مدت 31 مئی کو ختم ہوگا، ملک میں 85000 پولنگ اسٹیشن ہیں،پولنگ بوتھ دو لاکھ پچاسی ہزار ہیں،پولنگ عملہ نو لاکھ کے قریب ہے،ایڈیشنل سیکرٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ ہم نے آر اوز کی تین روزہ ٹریننگ مکمل کر لی ہے ، سیاہی کے طور پر مارکر کا تجربہ بھی ناکام رہا،اس دفعہ پھر سے نہ مٹنے
والی سیاہی استعمال ہوگی، بیلٹ پیپر واٹر مارک ہوں گے جو جرمنی سے برآمد کئے گئے ہیں، رکن کمیٹی یوسف بادینی نے کہا کہ پولنگ اسٹیشن میں عملہ اساتذہ ہوتا ہے،ہر استاد کا کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے، کیا اساتذہ کی جگہ دوسرا عملہ آ سکتا ہے، الیکشن کمیشن حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس مرتبہ انتخابات کی اصلاحات لائی گئی ہے، ان سے بیلٹ پیپر کی شفافیت یقینی
بنائی جائے گی، واٹر مارک پیپر عام بازار میں نہیں ملے گا،رکن کمیٹی سینیٹر اعظم خان موسی خیل نے کہا کہ بیلٹ پیپر ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جو نتائج کی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں ، جو بیلٹ پیپرغائب ہو جاتے ہیں اس مسئلے کو حل ہو نا چاہیئے ، انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کی حلقہ بندیاں غلط بنیادوں پر بنائی گئیں ہیں چیئرپرسن کمیٹی سسی پلیجو نے کہا کہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات پر
سوالیہ نشان آج بھی ہے، چاہتے ہیں سیاہی اور بیلٹ پیپر کے مسائل اس دفعہ نہ ہوں، سارے ملک کے لئے ایک ہی سسٹم ہونا چاہیئے الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کے اجلاس تین سال ہوتے رہے ہیں،جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مدد حاصل کی جائے گی انتخابات میں، موبائل کے ذریعے انتخابی نتائج فوری طور پر آر او اور الیکشن کمیشن کو بھیجے جائیں گے، سمارٹ فون ہو گا
اور اگر نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے اپنا ایپ بنایا ہے، وٹس ایپ دنیا بھر میں ہے اس لئے اسے استعمال نہیں کیا جائے گا،رزلٹ فارم کی تصوریر لے کر اسی وقت بھیجا جائے گا، سافٹ وئیر ایسا ہے جو راستے میں جہاں بھی سگنل ملے گا ڈیٹا بھیجے گا، ، چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ پارلیمنٹ الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑی ہے،موبائل ایپ کے حوالے سے ممبران کو اعتراضات ہیں،
الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ تمام ڈیٹا سسٹم چوبیس پولنگ اسٹیشن میں استعمال ہوئے ہیں،انتخابی مہم کی مانیٹرنگ کے لئے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسرز اور مانیٹرنگ ٹیموں کا اس مہینے کے آخر تک نوٹیفیکیشن جاری کر دیں گے،کسی مسئلے کی صورت میں ٹیمز ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسران کو رپورٹ کریں گے، ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر پچاس ہزار تک کے جرمانے کر سکتا ہے،
، چیئرپرسن کمیٹی نے کہاکہ الیکشن شفاف ہونے چاہیئں ، ہم نہیں چاہتے کہ جو غلطیاں پہلے ہوئی ہیں وہ دوبارہ ہوں ،جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گا تب حکام الیکشن کمیشن کو دوبارہ طلب کریں گے،الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد کمیٹی اجلاس دوبارہ بلایا جائے گا،