اسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئی جی کے اہم عہدے کو حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے‘ آرٹیکل 8کے تحت آئین سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا‘ جس قانون سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی وہ کالعدم ہوگا‘ صوبوں میں دیگر اعلیٰ عہدوں کی مدت تین سال ہے تو آئی جی کی مدت ملازمت تین سال کیوں نہیں ہوسکتی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہر قانون کا جائزہ آئین کی بنیاد سے لیا جاتا ہے۔
بدھ کو سپریم کورٹ میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اتنے اہم عہدے کو حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ کیا یہ حکومت کی مرضی ہے کہ جب چاہے آئی جی کو نکال دے۔ وکیل سندھ حکومت فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئین کے تحت قوائد بنانے کا اختیار متعلقہ محکموں کو ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 8کے تحت آئین سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا جو قانون بنیادی حقوق کے خلاف ہو وہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ جس قانون سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی وہ کالعدم ہوگا۔ وکیل نے کہا کہ حکومت کو قوائد بنانے کا اختیار ہے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہر قانون کا جائزہ آئین کی بنیاد سے لیا جاتا ہے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ حکومت کو قوائد بنانے کا اختیار بھی آئین فراہم کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ بتادیں کیا آئین سے متصادم قوانین بن سکتے ہیں؟ وکیل سندھ حکومت نے کہا کہ اگر قوائد آئین کے منافی ہوں تو کالعدم ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے آپ گزشتہ دلائل بھول گئے ہیں صوبوں میں دیگر اعلیٰ عہدوں پر مدت تین سال کی ہے اس تناظر میں آئی کی مدت ملازمت تین سال کیوں نہیں ہوسکتی۔ وکیل نے کہا کہ آئی جی کی مدت کا بنیادی حقوق سے کیا تعلق ہے۔