اسلام آباد (آن لائن،مانیٹرنگ ڈیسک) توہین رسالت کے غلط استعمال کو روکنے بارے مجوزہ قانونی بل پر بحث کے دوران سینیٹر ز آپس میں لڑ پڑے، اسلامی نظریاتی کونسل نے قانون کے غلط استعمال کو روکنے بارے اپنی سفارشات پارلیمان کو بھیج دیں جس پر مذہبی جماعت کے سینیٹرز نے شدید احتجاج کیا اور واضح کیا کہ توہین رسالت کے قانون پر بحث و مباحثہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔ جس کے بعد قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق دو حصوں میں
تقسیم ہوگئی ہے،پروگریسو سینیٹر ز قانون پر بحث کرنے کے حق میں ہیں جبکہ مذہبی طبقہ اس پر بحث کیلئے تیار نہیں ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کی کنونئیر سینیٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں ہونیوالے اجلاس کے دوران سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کمیٹی برائے انسانی اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کی روشنی مین توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال پر سفارشات مرتب کرے گی۔ وزارت مذہبی امور اور اسلامی نطریاتی کونسل نے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال پر تجاویز پیش کی۔ وزارت انسانی حقوق اور انسانی کمیشن نے اس سفارشات پر اتفاق کیا۔ توہین سالت کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے اقدامات کرنا مقصود ہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ اس قانون کا متعدد بار غلط استعمال کیا گیا جس کی وہ سے ملک کا نام بدنام ہوا۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگرچہ کسی شخص کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوا البتہ اس عمل کے دوران ان کا جینا دوبھر کردیا جاتا ہے 1991 ء مین فیڈرل شریعت کی جانب سے اس قانون میں عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کیا گیا تھا۔ جس کے بعد اس قانون کی آڑ میں متعدد مقدمات درج کئے گئے اور اس کا غلط استعمال کیا گیا۔ نظریاتی کونسل نے اس معاملے میں
تجویز پیش کی کہ اگر کسی کا بھی الزام غلط ثابت ہو تو الزام لگانے والے کو بھی وہی سزا دی جائے جو ملزم کی تجویز کی گئی ہے مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر کیلئے دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ اور سینئر پولیس آفیسر ہی ایف آئی آر درج کرنے کا مجاز ہوگا۔ فرحت اللہ بابر نے کہاکہ توہین رسالت قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی جارہی مفتی عبدالستار نے کہا کہ میری چیئرمین نظریاتی کونسل سے بات ہوئی ہے انہوں نے اس پر نفی کا اظہار کیا ہے۔
فرحت اللہ بابر نے تصحیح کرتے ہوے کہا کہ ہم اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کی بات کررہے ہیں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے پر آمادہ ہے ہم صرف غلط استعمال کرنے والے کی یقینی سزا بارے میں بات کررہے ہیں۔ نسرین جلیل نے قومی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی سفارشات سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ کمیٹی میں سانحہ یوحنا آباد کے بارے میں پادری صاحبان کی تجاویز بھی زیر بحث رہیں۔
جنہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سال سے کرائسٹ چرچ اور کتھولک چرک کو نشانہ بنایا گیا۔ اور اس کے بعد احتجاج کرنے والوں کو جیل میں بند کیا گیا ہے آئی جی پنجاب نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ ملزمان احتجاج کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ دو مشتبہ لوگوں کو مارنے اور جلانے کے الزام میں قید ہیں اور ان کے مقدمات عدالتوں میں ہیں۔ این سی ایچ آر کے ممبر چوہدری محمد شفیق نے جیل اصلاحات 101 سے 107 بارے میں آگاہ کیا۔ جس میں صدر سے اپیل
ا ور نو عمر افراد کی قید کے متعلق ہے۔ کمیٹی نے صدر کی جانب سے رحم اپیل مسترد ہونے کے جواز کو قانونی شکل میں آنا چاہیے تاکہ اس بارے میں تازہ اپیل دائر کی جاسکے۔ کمیٹی کو فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کمیٹی سفارش کرے ملٹری کورٹس میں مزید توسیع نہ کی جائے کیونکہ ملٹری کورٹس میں دو مرتبہ توسیع کی جاچکی ہے جس پر سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا جاسکتا ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس کے دوران مفتی عبدالستار نے ایک موقع پر سینیٹر محسن لغاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس اختیار ہوتا تو اب تک آپ زندہ نہ ہوتے۔