لاہور (نیوز ڈیسک) معروف صحافی و تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد مسعود نے بچوں کی فحش ویڈیو کے متعلق انکشاف کیے تھے اور اس پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی تھی، ایک موقر قومی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق اب سینئر صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان اور ثبوت دے دیے ہیں، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اب یہ جاننے کی کوشش میں مصروف ہے کہ یہ کام کسی منظم گروہ کا ہے یا پھر یہ انفرادی سطح پر کیا جاتا تھا،
جے آئی ٹی ان ثبوتوں کو جانچنے کے بعد اپنی رپورٹ دے گی جو مختلف کیسز کی تفتیش کے بعد تحقیقاتی اداروں سے اکٹھے کئے گئے ہیں۔واضح رہے کہ اس سے قبل ڈاکٹر شاہد مسعود نے مجرم عمران کے بارے میں انکشافات کیے تھے کہ اس کا ایک نہیں بلکہ 2شناختی کارڈ ہیں،ایک اکاؤنٹ میں کتنے پیسے ہیں؟زینب زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عمران کے بارے میں مزید چونکادینے وال یانکشافات ہوئے ہیں،سٹیٹ بینک کے ذرائع سے معلوم ہوا تھا کہ ملزم عمران کے دو شناختی کارڈ تھے جبکہ دوسرے شناختی کارڈ کے بارے میں چھان بین کی جا رہی ہے، سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ زینب کو قتل کرنے والے عمران کا پاکستانی بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے۔ ایف آئی اے میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ادارے نے بھی اپنی طرف سے ملزم عمران کے بینک اکاؤنٹس جاننے کیلئے تفتیش کی تاہم اکاؤنٹس کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں ملے۔ خیال رہے کہ نجی ٹی وی چینل نیوز ون کے اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا تھا کہ ملزم عمران کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں جن میں ڈالر، یورو اور پاؤنڈز میں لین دین کیا جاتا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ عمران کی پشت پناہی ایک گینگ کر رہا ہے جس میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر اور ملک کی اہم شخصیت شامل ہے۔گورنر سٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ملزم عمران کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے،
ملزم عمران کاایک موبائل اکاؤنٹ ہے جس میں130 روپے ہیں،حکومت پنجاب نے ایک اورشناختی کارڈ دیا ہے جس کی چھان بین کر رہے ہیں، مکمل چیک کرنے کے بعد دوسر ے شناختی کارڈ سے متعلق جواب دیاجائیگا، عمران کا کون سا شناختی کارڈ اصل ہے اورکون سا جعلی، اس کاجواب پنجاب حکومت دے گی۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان اور ثبوت دے دیے ہیں، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اب یہ جاننے کی کوشش میں مصروف ہے کہ یہ کام کسی منظم گروہ کا ہے یا پھر یہ انفرادی سطح پر کیا جاتا تھا