سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی طرف سے مایوسی کے اظہار نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ کل ایاز صادق نے دو مختلف انٹرویوز میں کہا کہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر سکے گی، آج بھی سپیکر نے میڈیا سے گفتگو کی ،ملک کے مختلف لیڈروں نے سپیکر کے خیالات پراپنا رد عمل دیا، سپیکر ایاز صادق اور اپوزیشن لیڈر کے خیالات سے محسوس ہوتا ہے خطرہ موجودہے اور یہ اسمبلیاں اب شاید شاید اور شاید ہی اپنی مدت پوری کر سکیں
اور حکومت اگر سسٹم کو کھینچ کر سینٹ کے الیکشنوں تک لے جاتی ہے تو پھر یہ واقعی بہت بڑا معجزہ ہو گا اور مجھے یہ معجزہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا‘ یہ حکومت اپنے پورے سسٹم کے ساتھ کسی بھی وقت فارغ ہو جائے گی اور حکومت کے جانے کے بعد جلد الیکشن کا امکان بھی ختم ہو جائے گا‘ کیئر ٹیکر گورنمنٹ کو بہرحال ملک کو ٹریک پر واپس لانے کیلئے کم از کم دو اڑھائی سال درکار ہوں گے‘ کیا واقعی کوئی گریٹر پلان موجود ہے‘ یہ پلان کون بنا رہا ہے اور کیوں بنا رہا ہے اور حکومت جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس گڑھے میں کیوں گر رہی ہے؟یہ حالات کو ٹھیک کیوں نہیں کر رہی؟ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جبکہ کل سپریم کورٹ عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کا فیصلہ سنائے گا شاید کل دونوں میں سے کوئی ایک قربان ہو جائے لیکن میری ذاتی رائے ہے عمران خان کو فارغ نہیں ہونا چاہیے‘ ملک میں ایک طویل وقفے کے بعد عمران خان کی شکل میں رئیل اپوزیشن سامنے آئی ‘ یہ رئیل اپوزیشن جمہوریت اور سسٹم دونوں کی بقا کیلئے ضروری ہے‘ اس کا قائم رہنا ضروری ہے‘ آپ خود سوچئے اگر عمران خان بھی ڈس کوالی فائی ہو جاتے ہیں تو پھر پیچھے کون بچے گا‘ میاں نواز شریف فارغ ہو چکے ہیں‘ پیپلز پارٹی سندھ میں بھی اپنی سروائیول کی جنگ لڑ رہی ہے اور اگران حالات میں عمران خان بھی ڈس کوالی فائی ہو جاتے ہیں تو آپ خود سوچئے پھر جمہوریت کہاں سٹینڈ کرے گی‘ ملک میں ڈیموکریسی کا کیا فیوچر ہو گا؟