جمعرات‬‮ ، 18 دسمبر‬‮ 2025 

سانحہ ماڈل ٹاؤن،کمیشن کس لئے بنایاگیا تھا اور رپورٹ میں کیا ہے؟جسٹس باقر نجفی نے کسے ذمہ دار ٹھہرایا؟اب آگے کیا ہوگا؟جاوید چودھری کاتجزیہ

datetime 5  دسمبر‬‮  2017 |

خواتین وحضرات ۔۔ملک میں جب بھی کسی بڑے جرم‘ کسی بڑے واقعے کے بعد کنفیوژن پیدا ہوتا ہے‘ پولیس اور دوسرے تحقیقاتی ادارے کسی سمت کا تعین نہیں کرپاتے تو پھر کمیشن بنایا جاتا ہے‘ ۔۔اس کمیشن کا مقصد ۔۔ذمہ داری کا تعین کر کے پولیس کو یہ ڈائریکشن دینی ہوتی ہے کہ آپ ۔۔اس سمت میں تحقیقات کریں ۔۔لیکن پاکستان کی تاریخ ہے ہمارے ملک میں جب بھی کمیشن بنا (اس) کمیشن نے کنفیوژن میں مزید۔۔اضافہ کر دیا (اس) نے چیزوں کو مزید بگاڑ دیا‘

آج بھی یہ تاریخ (دہرا) دی گئی‘ آج لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے پنجاب گورنمنٹ کو جسٹس باقر نجفی کی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ اوپن کرنے کا حکم دے دیا‘ ۔۔اس حکم کے بعد علامہ طاہر القادری نے اعلان کیا
کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں،یہ انصاف کی فتح ہے، جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم مظلوموں کو انصاف کی فراہمی کی طرف اہم قدم ہے،14 لاشیں گرانے والے اور 100 لوگوں کو گولیاں مارنے والے سفاک درندے جب پھانسیوں پر چڑھیں تو پھر شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو سکون ملے گا، رپورٹ کی کاپی ملنے کے بعد جائزہ لیں گے اور حتمی لائحہ عمل طے کرینگے ،شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اور کارکنان پرامن طریقے سے آج 6 دسمبر کو سول سیکرٹریٹ جائیں گے اور رپورٹ کی مصدقہ کاپی مانگیں گے ،ہمارا احتجاج پرامن ہو گا ،میرا کنٹینر بھی تیار ہے، رپورٹ میں سے کچھ ڈیلیٹ کرنے والے خود ڈیلیٹ ہو جائینگے، جو کہتے ہیں عدالتی فیصلوں سے قیادت نہیں بدلتی انہیں شرم آنی چاہیے، لاشیں گرانے اور انسانیت کا خون بہانے والی نام نہاد قیادت اب ہر حال میں کیفر کردار کو پہنچے گی۔سربراہ عوامی تحریک نے ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے کہا تھا کہ انگلی بھی اٹھی تو مستعفی ہو جاؤں گا ۔یہ سارے بیانات ریکارڈ پر ہیں، انہوں نے کہا کہ نواز شریف سانحہ ماڈل ٹاؤن کی منصوبہ بندی شامل ہیں۔ ان کے بغیر اتنا بڑا اقدام نہیں ہو سکتا۔ سانحہ سے قبل وزراء کے دھمکی آمیز بیانات ان کے ارادوں کوظاہر کررہے تھے کہ وہ خون کی ہولی کھیلنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر سابق آرمی چیف کے حکم پر درج ہوئی تھی۔ ہم نے وکلاء بھی بدلے اور فیسیں بھی ادا کیں ہمیں کن کن مسائل سے دو چار ہونا پڑا اس کا ذکر فی الحال نہیں کرتے۔ ہمارا ہدف قصاص ہے اور اس کے لیے ہم کسی حد تک بھی جائینگے۔ہم نے پرامن طریقے سے قانونی جنگ لڑی ہے اور صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا اس کے لیے قاتل حکمرانوں کا گھٹیا پروپیگنڈا بھی برداشت کیا لیکن الحمداللہ انصاف کی طرف پیشکش ہورہی ہے۔ہمارے بے گناہ کارکنوں کے قاتل شریف برادران ہیں اس میں ہیں ذرا برابر بھی شک نہیں ہے۔ ساڑھے تین سال تک انہوں نے حقائق چھپانے کی کوشش کی مگر اب ان کی گرفت ڈھیلی پڑرہی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ سچ سامنے آکررہے گا اور قاتل اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قاتل شہباز حکومت نے انصاف کے راستے میں جگہ جگہ پتھر کھڑے کیے ظلم کی انتہا کی ۔مجھے یقین تھا فرعون، قارون اور یزید بھی عمر بھر اقتدار میں نہیں رہے بالآخر وہ بھی اپنے انجام سے دو چار ہوئے۔ ہمارے پاس قانونی جنگ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ الحمداللہ شہداء کے ورثاء کا صبر اور ہماری جدوجہد رنگ لارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے غریب مگر غیرت مند ورثاء ڈٹے رہے اور آج انصاف کے دروازے کھل رہے ہیں۔
حکومت نے علامہ صاحب کی دھمکی سے پہلے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔لیکن علامہ صاحب کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور حکومت نے شام کے وقت کمیشن کی رپورٹ اوپن کر دی
صوبائی وزیرقانون رانا ثنا اللہ خان نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پنڈی کاشیطان پتہ نہیں اس رپورٹ کے بارے میں کیا کیا کہتا رہا۔رپورٹ کی کاپی اسے بھی بھجواؤں گا اور کہوں گا اس میں سے ایٹم بم نکال کرمجھے مارو ۔صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے پریس کانفرنس کے دوران عوامی تحریک کی جانب سے ان سے استعفیٰ طلب کئے جانے کے سوال کے جواب میں کہا کہ اب تو جس دن میرے استعفے کا مطالبہ نہ آئے تو میں خود پریشان ہو جاتا ہوں کہ آج مطالبہ نہیں آیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں باتیں تو بہت کر سکتا ہوں لیکن شہباز شریف نے مجھے پیشگی کہا ہے کہ پریس کانفرنس میں علامہ صاحب کی ذات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرنی ۔ اس کے باوجود رانا ثنا اللہ شریف برادران کی ماضی میں ڈاکٹر طاہر القادری سے عقیدت سے متعلق کچھ باتیں کر گئے۔
ہمیں ماننا پڑے گا ۔۔اس رپورٹ نے بھی بدقسمتی سے کنفیوژن میں اضافہ کر دیا ہے‘ یہ کمیشن تین سوالوں کے جواب کیلئے بنایا گیا تھا‘ فائرنگ کس کی طرف سے شروع ہوئی‘ فائرنگ کا آرڈر کس نے دیا تھا اور یہ آپریشن کس کے حکم پر کیا گیا ۔۔لیکن رپورٹ میں ۔۔ان تینوں سوالوں کا کوئی جواب موجود نہیں‘ جسٹس باقر نجفی نے 132 صفحات میں کسی شخص کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار نہیں دیا‘ جج صاحب نے مجرم کا فیصلہ رپورٹ کے قارئین پر چھوڑ دیا‘ اگر فیصلہ قارئین نے ہی کرنا ہے تو پھر ۔۔اس رپورٹ ۔۔اس کمیشن کی کیا ضرورت تھی‘ آپ مجرم کے تعین کیلئے براہ راست ریفرنڈم کروا لیتے چنانچہ رپورٹ نے مسئلہ حل کرنے کی بجائے مزید الجھا دیا‘کیا اب کمیشن کی رپورٹ کو سمجھنے کیلئے مزید ایک اور کمیشن بنے گا‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جبکہ آج پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے پچاس سال پورے ہونے پر اسلام آبادمیں ایک بھرپور جلسہ کیا ہم اس پر بھی بات کریں گے ہمارے ساتھ رہیے گا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جو نہیں آتا اس کی قدر


’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…