اسلام آباد(سی پی پی ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے دارالحکومت میں فیض آباد انٹر چینج پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے 20 دن تک جاری رہنے والے دھرنے کے پس منظر میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سیاست کی خاطر اسلام کی آڑ میں کسی کو بھی توہین آمیز زبان استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسی پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے جاری کردہ 8 صفحات پر مشتمل فیصلے میں
کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار رائے کے ساتھ ساتھ آزادی صحافت کو بھی ایک بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن جب اسلام کی عظمت یا سالمیت، پاکستان کی سلامتی یا دفاع یا اخلاقیات، یا توہین عدالت، کمیشن یا جرم کی حوصلہ افزائی کے لیے اسے استعمال کیا جائے تو اسے محدود کیا جاسکتا ہے۔عدالت عظمی کے فیصلے میں کہا گیا کہ کسی کو بھی سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اسلامی وجہ کو آڑ بنا کر اسلام کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، اسلام میں طاقت اور جبر کی کوئی جگہ نہیں، اسلام کے معنی امن کے ہیں۔اس سے قبل30 نومبر کو سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنے سے متعلق نوٹس کی سماعت میں عدالت نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس مقدمے سے متعلق تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرے گی۔بینچ نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کی جانب سے دھرنے کی میڈیا کوریج کو جائز قرار دینے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اپنی اہلیت کا استعمال کرے اور اس الیکٹرانک میڈیا سے متعلق قوانین پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔پیمرا کو حکم دیا گیا کہ وہ تمام میڈیا چینلز کے بارے میں ایک جامع رپورٹ عدالت میں جمع کرائے۔اپنے حکم نامے میں سپریم کورٹ نے
فیصلہ دیا کہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی مدد سے اس پر بعد میں غور کیا جائے گا کہ آیا ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود کے ذریعے جمع کرائی گئی انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو ( آئی بی) کی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے یا نہیں۔دو رکنی بینچ نے غور کیا کہ پاکستان کے عوام اس بات کو جاننے کے حقدار ہیں کہ دھرنے کی وجہ سے کتنی انسانی جانوں اور املاک کو نقصان پہنچا، جس پر عدالت نے وزارت دفاع
اور وزارت داخلہ کو حکم دیا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں، عوام اور مظاہرین میں اپنی جانے گوانے والوں یا زخمی ہونے والوں کی تفصیلات فراہم کرے۔عدالت نے وزارتوں کے حکام کو مزید ہدایت دی کہ دھرنے کے مظاہرین کی جانب سے عوامی اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے یا تباہ کرنے کی بھی تفصیلات پیش کی جائیں جبکہ مطلوبہ معلومات چاروں صوبوں اور اسلام آباد سے جمع کی جائیں۔فیصلے میں اس بات پر افسوس کا اظہار
کیا گیا کہ جب ریاست کے خلاف تشدد، عوامی اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا تھا تو اسے بغیر کسی تشدد کی مذمت کے نشر کیا جارہا تھا، جس نے نہ صرف مظاہرین کو ایک موقع فراہم کیا بلکہ انہیں تشدد کو پھیلانے کا حوصلہ دیا۔عدالت نے مزید حکم دیا کہ پیمرا 2002 کے آرڈیننس کے تحت اس بات کو یقینی بنائے کہ جس براڈکاسٹر کے پاس لائنسس ہے وہ پاکستان کی سالمیت، دفاع اور حاکمیت کا تحفظ یقینی بنائے گا۔حکم میں کہا گیا
کہ آرڈیننس کے سیکشن 20 کے مطابق الیکٹرانک میڈیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ تمام پروگرام اور اشتہارات میں تشدد، دہشت گردی، نسل پرستی، مذہبی یا نسلی تفریق، فرقہ پرستی، انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور نفرت شامل نہیں ہوگی اور اگر کوئی چینل ان تمام شرائط کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو سیکشن 33 کے تحت اس پر پہلے جرم میں 1 کروڑ تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے جبکہ چینلز کا
لائنسس بھی معطل ہوسکتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی سورش، اشتعال انگیزی یا بدسلوکی پر مشتمل بیانات نفرت اور تشدد کو پروان چڑھاتے ہیں۔عدالت نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا گیا کہ تشدد میں اضافہ چینلز پر اشتعال انگیز مواد کے نشر ہونے سے ہوا، اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ آئین پاکستان میں آزادی اظہار رائے اور آزاد میڈیا کا حق ہے لیکن کسی جرم کو بڑھاوا دینے یا لوگوں کو مشتعل کرنے
کی کوئی جگہ نہیں اور میڈیا تشدد، انتہاپسندی، عسکریت پسندی یا نفرت کو فروغ نہیں دے سکتا۔فیصلے میں کہا گیا کہ ہر عالم، سیاست دان اور میڈیا اینکر سمیت ہر کوئی آئین کی پاسداری کا پابند ہے، ہر شہری آئین اور قانون پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے اور جو لوگ تشدد کرتے یا تشدد کو فروغ دیتے، املاک کو نقصان پہنچاتے، توہین آمیز زبان کا استعمال اور نفرت انگیز تقریریں کرتے وہ اسلامی احکامات کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔فیصلے میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ آئین کے آرٹیکل 2 کے مطابق اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا۔عدالت عظمی نے مزید حکم دیا گیا کہ وزارت اطلاعات اس فیصلے کی کاپی تمام میڈیا چینلز، اخبارات اورجرائد کو بھی بھجوائے۔