اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ میں عمران خان کی نااہلی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ بنی گالا اراضی بے نامی ہو بھی تو اصل مالک جمائما تھی ٗصرف 6.5فیصد رقم کی ٹریل ثابت نہیں ہوئی ٗدرخواست گزار کے مطابق اکاؤنٹ میں موجود 99ہزار پاؤنڈ بھی ظاہر کرنے چاہیے تھے۔ منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے تحریک انصاف کی
غیرملکی فنڈنگ اور عمران خان کی نااہلی کی درخواست کی سماعت کی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیازی سروسز لندن فلیٹ کا ٹیکس بچانے کیلئے بنائی گئی، اس کے اکاؤنٹ میں عمران خان کی ذاتی رقم بھی آتی رہی جبکہ 2003کے بعد اکاؤنٹ کی تفصیلات بھی نہیں دی گئیں۔درخواست گزار کے مطابق اکاؤنٹ میں موجود 99ہزار پاؤنڈ بھی ظاہر کرنے چاہیے تھے۔درخواست گزار مسلم لیگ( ن )کے رہنما حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ پیش کی گئی دستاویزات شکوک وشبہات سے بالاتر ہونا چاہیے تھیں ٗدستاویزات مشکوک ہیں، 2خطوط پیش کیے گئے جن کے دستخط آپس میں مل نہیں رہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر بھی یہ اعتراض سن کرنوٹ کرلیا تھا ٗدرخواست گزار کا موقف ہے دستاویزات جعلی ہیں، ٹیکس نمبرز اور دستخط کے ساتھ ساتھ دیگر غلطیاں بھی ہیں۔اکرم شیخ نے کہا کہ کوئی بھی وکیل ایسی دستاویزات سپریم کورٹ کے سامنے پیش نہیں کرسکتا ٗ آپ کے سامنے دستاویزات رکھنے کا مطلب ہے خوب چھلنی سے گزار کر رکھا گیا ٗیہ امید نہیں کی جاسکتی تھی کہ دستاویزات مشکوک ہوں گی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے ہمیں اکاؤنٹینٹ سمجھ رکھا ہے؟ آپ میاں بیوی کی چھوٹی چھوٹی چیزیں یہاں لاکر کررکھ دیتے ہیں۔اس پر حنیف عباسی کے وکیل نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ سر تسلیم خم ہے ٗ میں آپ سے ایسا کوئی کام نہیں لے سکتا ٗ غیر ضروری چیزیں نہیں دہراؤں گا ٗ میرا کیس عمران خان کی ٹیکس ادائیگی کا نہیں اثاثے ظاہر نہ کرنے کا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان نے تین ٹرانزیکشنز ثابت کردی ہیں، صرف مئی میں آنے والی رقم ثابت نہیں ہوسکی۔
سماعت کے دور ان فیصل عرب نے استفسار کیا کہ نیازی سروسز لمیٹڈ کے علاوہ کوئی دوسرااثاثہ سامنے نہیں آیا، اکرم شیخ نے کہاکہ میرے اتنے وسائل نہیں کہ معلوم کرسکوں کوئی دوسرا اثاثہ تھا، یہ حقیقت ہے کہ نیازی سروسز لمیٹڈ کمپنی 2015 تک فعال رہی جبکہ عمران خان 2013 کے الیکشن میں نیازی سروسز لمیٹڈ کمپنی کو ظاہر کرسکتے تھے ٗنیازی سروسز لمیٹڈ کمپنی کے اکاؤنٹ میں عمران خان کی کتاب اور کرکٹ آمدن بھی آتی رہی جبکہ عمران خان این ایس ایل کمپنی کے اکاؤنٹ میں رکھے پیسوں کواستعمال کرتے تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ان حالات میں ہم کیا کرتے، کیا ہمارے پاس ریکارڈ طلب کرنے کا اختیار ہے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ نیازی سروسز کمپنی کے اکاؤنٹ میں موجود ایک لاکھ پاؤنڈ کس کے تھے، عمران خان نے این ایس ایل کے اثاثے 2002 اور 1997 کے کاغذات میں نہیں بتائے۔جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ پیسہ کہیں بھی رکھا جائے کسی کا کیا جاتا ہے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ کسی کا کچھ نہیں جاتا قانون کا بہت کچھ جاتا ہے، عدالت خود دیکھ لے کہ این ایس ایل کو ظاہر کیا گیا تاہم میرامقدمہ اثاثے ظاہرنہ کرنے کا ہے، جمائما کو ایک لاکھ 80 ہزار ڈالرز قرض سے زیادہ ادا کیے، جتنا قرض تھا اتنا ہی ادا کرنا چاہیے تھا۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت میں پہنچنے کے بعد کہا کہ میری طبیعت کل سے ناساز ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اکرم شیخ نے سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں، جمائما خان کی طرف سے راشد خان کو رقم بھیجنے پرسوال نہیں اٹھائے جبکہ عمران خان کا قرض لینا الیکشن کمیشن کے ریکارڈ سے ثابت نہیں ہوتا لہذا جو مقدمہ ثابت شدہ ہے اسی پر زور ڈالوں گا۔ اکرم شیخ نے کہا کہ یہ ثابت شدہ ہے کہ جمائما سے عمران خان نے قرض لیا، کاغذات نامزدگی میں قرض ظاہر نہیں کیاگیا جس پر جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیا کہ یہ میاں بیوی کے درمیان معاملہ تھا، اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ معاملہ باپ بیٹے کا ہو یا میاں بیوی کا قانون کی نظرمیں دیکھناہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ قرض ظاہرنہیں کیالیکن جمائما کے نام اراضی کو ظاہرکردیا جس پر شیخ اکرم نے کہا کہ عمران خان نے اپنے پہلے تحریری جواب میں کہاں لکھا ہے کہ زمین جمائما کے لیے خریدی جبکہ آخری جواب میں عمران خان نیا موقف پیش کرتے ہیں، عمران خان آخری جواب میں کہتے ہیں زمین سے انکا تعلق نہیں، وہ کہتے ہیں زمین براہ راست جمائما نے خریدی، مجھے بتادیں میں عمران خان کے کس جواب پر انحصار کروں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جواب میں تضاد کدھر ہے، مان لیں جائیداد بے نامی تھی تاہم جواب میں لکھا ہے کہ ادائیگی جمائما نے بینک کے ذریعے بھیجی رقم سے کی، دیکھنا یہ ہے کہ بے ایمانی ہوئی ہے جبکہ بنی گالہ اراضی بے نامی ہوتوبھی فرق نہیں پڑتا۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ عمران خان نے برطانیہ سے رقم آنے کا ریکارڈ دکھادیا، 65لاکھ عمران خان نے پہلے جبکہ 5 لاکھ 62 ہزار پاؤنڈ بعد میں تحفہ کیے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ 5 رکنی بینچ کا فیصلہ دیکھ لیں کیا تنخواہ لینے کا ادارہ تھا کہ نہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہوسکتا ہے پاناما فیصلہ اس مقدمے کیلئے متعلقہ نہ ہو، جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا وہ فیصلہ پڑھ لیں۔ اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت کے کہنے پر پاناماکا فیصلہ دوبارہ پڑھا ہے۔اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ 30 جون 2002 تک عمران خان کے نام قرض واجب الادا تھا،الیکشن کے کاغذات میں قرض کو ظاہر نہیں کیا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاناما میں معاملات کمپنی کے درمیان تھے اور پاناما میں تنخواہ کا معاملہ بیٹے اور باپ کے درمیان نہیں تھا جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ یہ خاندانی کمپنی تھی خاندانی معاملہ تھا۔
اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ عمران خان کی اپیل منظور ہونے پر وہ ممبر قومی اسمبلی بن گئے جبکہ پرویز مشرف عمران خان کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 2013 کے الیکشن میں عمران خان نے غلط بیانی کی ہے، 2002 کے الیکشن میں نااہلی کا وقت گزر گیا لہذا ہمیں 2013کے الیکشن کے بارے میں بتائیں، اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت 2002 کے معاملے پر ایک رکن کو 2013 میں نااہل کر چکی ہے تاہم عدالت نے فیصلہ کرنا ہے جبکہ عمران خان مرد بنیں اور اپنی جائیداد ظاہر کریں، عمران خان مرد بنیں سینہ تان کر کہے اراضی انہوں نے خریدی ہے، عمران خان ملک کے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ابھی فیصلہ محفوظ نہیں کررہے، فیصلہ محفوظ کرلیا تو بعد میں سوال اٹھانا ممکن نہیں ہوگا جبکہ جہانگیرترین کیس میں بھی آف شورکمپنی کامعاملہ ہے، اگرعمران خان کیس سے متعلق مزید سوالوں کے جواب درکار ہوئے تو جوابات پوچھیں گے۔ جہانگیر ترین کے خلاف حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت(آج)بدھ کو ہوگی۔واضح رہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ اور نامعلوم ذرائع سے بنی گالا کی رہائش گاہ کی خریداری پر درخواست دائر کی گئی جس میں عدالت سے عمران خان کی نااہلی کی استدعا کی گئی ۔