منگل‬‮ ، 10 جون‬‮ 2025 

2200سال بعد

datetime 10  جون‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے‘ آبادی کے لحاظ سے چینی معیار کے مطابق درمیانے سائز کا شہر ہے‘ اس کی آبادی ایک کروڑ 30 لاکھ (صرف) ہے‘ تعلیم‘ ثقافت اور معیشت کا مرکز ہے‘ اس ایک شہر میں 75یونیورسٹیاں ہیں‘ سائنسی تحقیقات اور ریسرچ میں شیان دنیا کے 20اعلیٰ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے‘ معیشت میں دنیا کے 100 بڑے شہروں میں شامل ہے جب کہ اس شہر میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ ٹیرا کوٹا وارئیرز‘ ساڑھے تیرہ سو سال پرانی مسجد اور گیارہ سو سال پرانی مسلم سٹریٹ ہے‘

شہر کی قدیم فصیل‘ ٹنگ بادشاہ کے گرم پانی کے تالابوں پر بنا محل اور شہر کے قدیم بیل ٹاور اور ڈرم ٹاورزہر سال دنیا بھر سے کروڑ سیاحوں کو شیان کھینچ لاتے ہیں‘ شہر دو حصوں میں تقسیم ہے‘ قدیم اور جدید‘ جدید علاقوں میں بلندوبالا عمارتیں‘ کھلی اور صاف ستھری سڑکیں اور پل اور انڈر پاس ہیں‘ درجنوں مالز اور شاپنگ سٹریٹ بھی ہیں‘ صنعتی شہر ہے‘ الیکٹرک گاڑیوں کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بی وائی ڈی کی سب سے بڑی فیکٹری شیان سے ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے‘ اس کا اثر شیان کی معیشت پر نظر آتا ہے جب کہ قدیم حصے میں اڑھائی ہزار سال پرانے زمانے بہتے اور سانس لیتے ہیں‘ آپ اگر بجلی بند کر دیں تویہ حصہ آپ کو چند منٹوں میں ماضی میں لے جائے گا۔

میں دس سال بعد ایک بار پھر ٹیراکوٹا وارئیرز کے سامنے کھڑا تھا‘ میری پشت پر سرسبز پہاڑ تھا‘ یہ دور سے گھوڑے جیسا دکھائی دیتا تھا اور سامنے ٹیرا کوٹا وارئیرز کا ٹکٹ آفس تھا‘ اس دن بارش ہو رہی تھی‘ ہم چالیس لوگ چھتریاں لے کر بارش میں بھیگتے ہوئے ٹکٹ آفس کے سامنے کھڑے تھے‘ ٹکٹ آفس اور سائیٹ ایک دوسرے سے دور ہیں لہٰذا سیاحوں کو الیکٹرک گاڑیوں میں بٹھا کر سائیٹ پر لایا جاتا ہے‘ یہ تین کمپلیکس پر مشتمل ہے‘ ہم جوں ہی پہلے ہال میں داخل ہوئے ہم میسمرائز ہو کر رہ گئے‘ ہال بیس کنال لمبا تھا جس کی چاروں سائیڈز پر برآمدے تھے اور نیچے بارہ سے پندرہ فٹ گہرائی میں مٹی کے ٹیلوں کے درمیان سینکڑوں مجسمے کھڑے تھے‘

تمام مجسمے فوجیوں کے تھے اور وہ لڑائی کے لیے تیار کھڑے تھے‘ سب کے چہرے اور قد کاٹھ ایک دوسرے سے مختلف تھے‘ وہ یونیفارم میں تھے اور ان کے گھوڑے بھی ان کے ساتھ تھے‘ کھدائی کا کام بھی چل رہا تھا‘ آثا قدیمہ کے ماہرین چھوٹے بڑے اوزاروں کے ساتھ زمین کھود کر مجسمے نکال رہے تھے اور انہیں برش سے صاف کر رہے تھے‘ بائیس سو سال مٹی میں دفن رہنے کی وجہ سے مجسمے شکست وریخت کا شکار تھے‘ ان پر ایسا پینٹ بھی تھا جسے جب آکسیجن لگتی ہے تو وہ مجسمے کو توڑنا شروع کر دیتی ہے چناں چہ ماہرین بت نکال کر چار گھنٹوں کے اندر اس پر ایسے کیمیکل لگا دیتے ہیں جو انہیں ٹوٹنے سے بچا لیتا ہے‘ پہلے کمپلیکس میں انفنٹری کے بت ہیں‘ یہ دو بدو لڑائی کے ماہرین تھے اور ہاتھ اور پائوں سے لڑتے تھے‘ انفنٹری کے بعد گھڑ سوار فوج کے بت ہیں لیکن یہ گھوڑوں پر سوار نہیں ہیں‘ گھوڑے ان کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں مگر ان کی پوزیشن سے محسوس ہوتا ہے یہ کسی بھی وقت چھلانگ لگا کر گھوڑوں پر سوار ہو جائیں گے‘

بت تراش اس قدر ماہر تھے کہ انہوں نے گھوڑوں کے مسلز اور بال تک تراش دیے‘ گھوڑوں کے دانت نظر آ رہے ہیں‘ کمپلیکس کے مجسمے زلزلوں کی وجہ سے متاثر ہوئے‘ ان کے بازو اور سر وقت کے بے رحم ہاتھوں نے گرا دیے لیکن آج کے ماہرین نے انہیں دوبارہ گردن پر فٹ کر دیا‘ کمپلیکس کے چار حصے ہیں‘ پہلے حصے کے بت اپنے قدموں پر کھڑے ہیں‘ دوسرے حصے میں بتوں کی ری کنسٹرکشن ہوتی ہے جو بت جہاں سے نکلتا ہے وہاں ایک نمبر لگا دیا جاتا ہے‘ مجسمے کو بھی وہی نمبر الاٹ کر دیا جاتا ہے‘ اسے دوبارہ قدموں پر کھڑا کرنے کے بعد اس کی اصل جگہ پر کھڑا کر دیا جاتا ہے‘ بنانے والوں نے بتوں کو چار حصوں میں بنایا‘ ٹانگیں سالڈ ہیں‘ پیٹ سے گردن تک دوسرا پیس ہے اور یہ اندر سے خالی ہے‘ بازو اور سر الگ الگ بنائے گئے تھے اوریہ بھی اندر سے خالی ہیں‘ انہیں بعدازاں بھٹی پر پکایا گیا اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا گیا‘ ٹانگیں سالڈ ہونے کی وجہ سے بت پائوں پر کھڑے رہے‘ وہاں بے شمار ایسے بت بھی تھے جنہیں ری پیئرنگ کی ضرورت نہیں پڑی‘ یہ جوں کے توں ہیں‘ کمپلیکس کے آخری حصے میں آرکائیو ہے‘ وہاں تمام بتوں اور ان کے پارٹس کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے‘ سائیٹ سے نکلنے والی کوئی چیز حتیٰ کہ مٹی تک کمپلیکس سے باہر نہیں جا سکتی‘ ورکر آتے ہیں‘ کام کرتے ہیں اور انہیں کڑی تلاشی کے بعد خالی ہاتھ واپس بھیجا جاتا ہے۔

ہال نمبر ایک کے ساتھ ہال نمبر دو ہے‘ یہ بادشاہ کا آفس تھا‘ اس میں جرنیلوں اور کمانڈرز کے بت ہیں‘ یہ پہلے ہال کے مقابلے میں نسبتاً چھوٹا ہے‘ اس کی کھدائی ابھی مکمل نہیں ہوئی تاہم اس میں موجود بتوں کے کپڑوں‘ جوتوں‘ چہرے اور سر کے بالوں سے اندازہ ہوا یہ ایلیٹ لوگ تھے‘ اس کمپلیکس سے نکلنے والے گھوڑوں کے بت بھی خصوصی تھے‘ اس قسم کے گھوڑے قدیم چین میں شاہی خاندان اور امراء استعمال کرتے تھے‘ اس بلاک میں مٹی کے مختلف بلاکس ہیں‘ میں نے گائیڈ سے پوچھا یہ پورا سیکشن کیوں نہیں کھودا گیا‘ اس کا جواب تھا کمپلیکس بہت حساس ہے‘ ماہرین کا خیال ہے اسے آہستہ آہستہ کھودنا چاہیے‘ تھوڑی سی رفتار بڑھانے سے یہ پورا ضائع ہو جائے گا‘ کمپلیکس ٹو میں تصویریں بنوانے کا سٹوڈیو بھی ہے‘ سٹوڈیو میں ٹیرا کوٹا کے چند مجسمے رکھے ہیں‘ یہ رپلیکا ہیں‘ سیاح ان پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں پس منظر میں دور دور تک مجسمے نظر آتے ہیں یوں جب تصویر پرنٹ ہو کر آتی ہے تو اس میں دور دور تک ٹیرا کوٹا وارئیرز نظر آتے ہیں اور سیاح ان کے درمیان کھڑا ہوتا ہے‘ آج سے دس سال پہلے بھی اس تصویر کی قیمت سو یوآن تھی اور آج بھی‘ گو اس وقت سو یوآن سات سو روپے کے برابر تھے لیکن آج یہ چار ہزار روپے میں آتے ہیں‘ ٹیراکوٹاوارئیرز کا تیسرا کمپلیکس مٹی کی مکمل ڈھیری ہے‘ اس میں ابھی کھدائی نہیں ہوئی تاہم اس کے برآمدے میں چار مکمل ٹیرا کوٹا وارئیرز ہیں‘ یہ شیشے کے کیس میں رکھے ہیں اور دیکھنے والوں کو دم بخود کر دیتے ہیں‘

پہلا مجسمہ کسی جنرل کا ہے‘ اس نوعیت کے سات مجسمے کمپلیکس سے برآمد ہوئے تھے‘ یہ بادشاہ کے جنرل تھے‘ وہ مضبوط کاٹھی کا چھ فٹ اونچا شخص تھا‘ اس کی زرہ بکتر لوہے کی تھی اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر بنائی تھی‘ داڑھی کے بال گندھے ہوئے تھے اور سر کے بال دو تین منزلہ تھے‘ چہرے پر غرور تھا‘ وہ ایک گھٹنا زمین پر ٹیک کر بیٹھا تھا‘ جوتے کے سول میں چھوٹے چھوٹے سینکڑوں دائرے تھے اور اس نے لمبی قمیض اور تنگ ٹروزر پہن رکھا تھا‘ آپ یہاں یہ یاد رکھیں یہ مجسمہ بھی مٹی کا بنایا گیا تھا اور اسے بھی پکایا گیا تھا اور اس کے جسم پر زرہ بکتر ہو‘ کپڑے ہوں یا جوتے یہ سب مٹی کے تھے لیکن انہیں دیکھ کر لوہے اور چمڑے کا احساس ہوتا تھا‘ دوسرا مجسمہ کسی گارڈ کا تھا اور وہ سیدھا کھڑا تھا جب کہ تیسرا مجسمہ گھوڑے کا تھا اور اس کی تمام جزئیات بھی عقل کو حیران کر دیتی ہیں‘ ٹیرا کوٹا وارئیرز کے تمام ہتھیار لکڑی کے بنائے گئے تھے تاہم وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے‘ انہیں زمانے کے گھن نگل گئے چناں چہ ان تمام کمپلیکسز میں کوئی ہتھیار نہیں ملا‘ ماہرین 50 برسوں میں صرف تین کمپلیکس کھود سکے جب کہ یہاں اس قسم کے 600 کمپلیکس ہیں‘

علاقے میں درجن بھر گائوں تھے‘ انہیں یہاں سے ہٹا دیا گیا‘ اب 54 مربع کلومیٹر کا یہ علاقہ عالمی ورثہ ہے‘ بادشاہ چن شی ہونگ کا مقبرہ کمپلیکس سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے اس کی فوجیں مقبرے کی حفاظت کر رہی ہیں‘ بادشاہ کا مقبرہ اہرام کی طرح ہے اور یہ ابھی تک کھولا نہیں گیا‘ ہم نے دور سے اس کی زیارت کی‘ کمپلیکس سے ذرا سے فاصلے پر ٹیرا کوٹا کا شاپنگ سنٹر ہے جس میں کافی شاپس‘ ریستوران اور سووینئر شاپس ہیں‘ ٹیرا کوٹا واریئر میں جا کر احساس ہوتا ہے دنیا کی ہر چیز فانی ہے لیکن اگر انسان کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دے جائے جس کی مثال دنیا میں نہ ملتی ہو تو وہ رہتے زمانوں تک زندہ رہ جاتا ہے‘ بادشاہ چن شی ہونگ اور اس کی سلطنت بھی وقت کی گرد میں گم ہو گئی لیکن ٹیرا کوٹا وارئیرز نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا اور اس پر اب روزانہ تحقیق ہو رہی ہے‘ بے شک انسان اگر زندگی میں طویل عرصہ تک پڑھی جانے والی کتاب لکھ دے یا پھر کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دے دے جس پر کتابیں لکھی جائیں تو اس کی عمر لمبی ہو جاتی ہے اور بادشاہ چن شی ہونگ نے ایک ایسا ہی کارنامہ سرانجام دیا تھا جس پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں اور ہزاروں ابھی لکھی جائیں گی۔
ٹیرا کوٹا وارئیرز کے بعد ہماری منزل ہواکنگ پیلس (Huaqing Palace) تھی‘ یہ ٹیرا کوٹا سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ’’لی کی پہاڑیوں‘‘ میں واقع ہے‘

علاقے میں گرم پانی کے چشمے ہیں‘ دو ہزار سال قبل لوگ یہاں غسل کے لیے آتے تھے‘ ٹنگ سلطنت کے بادشاہ تھائے زونگ (Taizong) کی تین ہزار کنیزیں تھیں لیکن اس کا دل یانگ گوفئے (Yang Gufei) کی ذلفوں میں الجھا ہوا تھا‘ بادشاہ نے 723ء میں پہاڑوں کے دامن میں گرم پانیوں کے چشموں پراس کے لیے انتہائی خوب صورت محل بنایا‘ یہ داستان شاہ جہاں اور ممتاز محل سے ملتی جلتی تھی‘ گو یہ محل تاج محل نہیں لیکن اس کے باوجود لائق دید اور قابل تعریف ہے‘ یہ جنت کا ٹکڑا تھا اور ہم ٹیرا کوٹا وارئیرز کے بعد اس جنت کے دروازے پر کھڑے تھے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



2200سال بعد


شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…

10مئی2025ء

فرانس کا رافیل طیارہ ساڑھے چار جنریشن فائیٹر…

7مئی 2025ء

پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…

27ستمبر 2025ء

پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…