جمعہ‬‮ ، 21 فروری‬‮ 2025 

بخارا کا آدھا چاند

datetime 20  فروری‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا ہوا تھا‘ ہوا میں خنکی تھی اور گلیوں میں سناٹا اور اندھیرا اور ہم اس اندھیرے‘ اس سناٹے میں تاریخ کے نقش ٹٹول رہے تھے‘ بخارا کی وہ رات ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کر رہی تھی‘ اس زمین‘ اس کائنات میں کوئی شخص‘ کوئی کام یابی اور کوئی کامرانی دائمی نہیں‘ اس کائنات کی ہر چیز بے ثبات‘ فانی اور عارضی ہے‘

دنیا میں اگر کسی چیز کو ثبات اور دائم حاصل ہوتا تو وہ ماضی کا بخارا ہوتا اور اس بخارے کی چھوٹی اینٹوں کی گلیوں میں امام بخاریؒ کے قدموں کی آہٹ ہوتی‘ بوعلی سینا کے لڑکھڑاتے قدم ہوتے یا پھر خوارزمی اور البیرونی کی سوچ میں ڈوبی ہوئی شکلیں ہوتیں یا پھر چنگیز کے دھاڑتے ہوئے لشکری ہوتے یا پھر امیر تیمور کی پھنکار ہوتی یا پھر الغ بیگ کا علم پرور دور ہوتا یا پھر بی بی خانم کی عقیدت ہوتی‘ یہ سب کچھ بخارا کے نیلے آسمان اور آدھے چاند کے ساتھ ٹھہر گیا ہوتا اور ہم تین اجنبی بخارا کی قدیم گلیوں میں گھومتے ہوئے تاریخ کے ان چمکتے دمکتے ادوار کی لو محسوس کر رہے ہوتے لیکن بخارا تو وہاں موجود تھا مگر ماضی تبدیل ہوتے دنوں اور کروٹ لیتے کیلنڈروں میں کہیں گم ہو گیا تھا اور جاتے ہوئے اپنے روشن چہرے بھی ساتھ لے گیا تھا اور پیچھے پرانی عمارتوں کے کھنڈروں‘ چھوٹی اینٹ کی گلیوں‘ اندھی دیواروں اور بخارا کے قدیم دنوں کی ادھوری کہانیوں کے سوا کچھ نہیں بچا تھا اور ہم تاریخ کے اس عظیم عبرت سرائے میں 17فروری کو پرانے نقش کھوج رہے تھے۔

بخارا محض ایک شہر نہیں‘ یہ تاریخ کا عظیم نوحہ بھی ہے‘ یہ بے ثبات دنیا کی بے ثباتی کی دلیل بھی ہے‘ بخارا کبھی علم کا مکہ ہوتا تھا‘ اسلام نے آنکھ حجاز میں کھولی تھی لیکن اس کی علمی پرورش بخارا میں ہوئی تھی‘ یہ شہر ایشیا کا مرکز تھا‘ یہ شاہراہ ریشم پر تھا‘ ہندوستان‘ ایران اور افغانستان سے آنے والے تمام تجارتی قافلے بخارا سے ہو کر گزرتے تھے‘ مسافر ارض روم کا ہو‘ مزار شریف یا کابل کا یا پھر اس کی منزل شیراز‘ خراسان‘ کاشغر‘ خیوایا باکو ہو یا پھر اس نے ملتان‘ دہلی یا سورت جانا ہو وہ بخارا سے گزرے بغیر اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتا تھا‘ بخارا اس کا جنکشن ہوتا تھا‘ اسلام حجاز سے نکلا تو بخارا اسلام کی درس گاہ بن گیا‘

مسلمانوں کے ہر حکمران نے اس شہر میں اپنے نام کا مدرسہ بنوایا اور اس مدرسے میں علم‘ ادب اور سائنس کی تعلیم شروع ہو گئی‘ ایک وقت تھا جب بخارا میں دو سو مدارس تھے‘ یہ مدارس اس دور کی یونیورسٹیاں تھے‘ آپ تصور کیجیے جس شہر میں دو سو یونیورسٹیاں ہوں اور ان یونیورسٹیوں میں اپنے دور کے عظیم لوگ تعلیم دیتے ہوں اس شہر کی علمی اور ادبی فضا کیا ہو گی‘ یہ شہر بغداد اور قاہرہ کا ہم پلہ تھا اور اس دور کے طالب علم بغداد‘ قاہرہ اور بخارا کے درمیان گردش کرتے تھے‘ شہر میں سینکڑوں کاروان سرائے اور خانقاہیں بھی تھیں‘ کاروان سرائوں میں تجارتی قافلے ٹھہرتے تھے جب کہ خانقاہوں میں درویش اور اعلیٰ خاندانوں کے چشم و چراغ۔ شہر میں عالی شان مساجد کا جال بچھا تھا‘ بخارا‘ سمر قند اور تاشقند کے لوگ آسمانی‘ نیوی بلیو اور ہلکا سبزرنگ پسند کرتے تھے چناںچہ ان کی عمارتوں پر ان تینوں رنگوں کے موزیک ہوتے تھے‘

یہ چکور اینٹیں بناتے تھے اور سمر قند اور بخارا کی تمام عمارتیں ان چکور اینٹوں سے سے بنی تھیں‘ امام بخاری ؒ بھی اسی قسم کی کسی عمارت میں علم بانٹتے تھے‘ یہ 194 ہجری (810ئ) میں بخارا کے مضافات میں پیدا ہوئے‘ یہ 16 سال کی عمر میں مکہ تشریف لے گئے اور چالیس سال مکہ‘ مدینہ‘ طائف‘ جدہ‘ بصرہ اور کوفہ میں احادیث جمع کرتے رہے‘ انہوں نے احادیث کی پہلی تصدیق شدہ کتاب صحیح بخاری مرتب کی اور واپس بخارا آ گئے اور مدرسے میں طالب علموں کو تعلیم دینا شروع کر دی‘ یہ بخارا میں بہت مقبول تھے‘ امیر بخارا کو آپ کی مقبولیت پسند نہ آئی‘ اختلافات پیدا ہوئے اور ان کے نتیجے میں امام بخاریؒ سمر قند ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے‘ یہ سمر قند کے مضافات میں اپنے ننھیال کے گائوں خرتنگ میں تشریف لے آئے اور وفات کے بعد یہیں مدفون ہوئے‘ مجھے ان کے مزار پر حاضری اور دعا کی سعادت بھی نصیب ہوئی‘ امام بخاریؒ اس شہر کے عظیم اساتذہ میں سے ایک تھے اور یہ شہر کے عظیم مدارس میں سے ایک مدرسے کے استاد تھے۔

بخارا مدارس کا شہر تھا‘ یہ مدارس ’’بورڈنگ ہائوس‘‘ ہوتے تھے‘ پوری دنیا سے طالب علم آتے تھے اورپانچ چھ برس تک ان مدارس میں رہتے تھے‘ بخارا کے مدارس دو منزلہ تھے‘ یہ چکور عمارتیں تھیں جن کے درمیان میں طویل صحن ہوتا تھا‘ کمرے صحن کے چاروں اطراف بنائے جاتے تھے‘ صحن میں انگور کی بیلیں‘ سیب‘ چیری اور شہتوت کے درخت ہوتے تھے‘ طالب علم ان درختوں کی گھنی چھائوں میں پڑھتے تھے اور کمروں میں رہتے تھے‘ کمرے ہوا دار اور روشن تھے اور انہیں سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا رکھنے کا خصوصی بندوبست تھا‘ کمرے دو منزلہ بھی تھے‘ طالب علم بالائی منزل سونے کے لیے استعمال کرتے تھے اور نچلی منزل ان کی سٹڈی ہوتی تھی‘

ایک کمرے میں دو طالب علم رہتے تھے‘ ہر مدرسے کی اپنی مسجد تھی‘ حکومت طالب علموں کو وظائف بھی دیتی تھی‘ ازبک حکومت نے چند مدارس کو ہوٹل میں تبدیل کر دیا ہے‘ ہم لوگ بھی اسی نوعیت کے ایک مدرسہ ہوٹل میں رہے‘ اس مدرسہ ہوٹل کی دیواروں‘ دروازوں اور کھڑکیوں سے ماضی کی خوشبو آتی تھی‘ چھت پر لکڑی کا برآمدہ تھا اور اس برآمدے میں صبح کے وقت ناشتہ کرنا شان دار روحانی تجربہ تھا‘ ماضی کے حکمران اور حکمران خاندان اپنی حیثیت کے مطابق بخارا میں مدارس قائم کر دیتے تھے‘ یہ مدارس ان کی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے نعمت ثابت ہوتے تھے‘ یہ لوگ انتقال کے بعد دفن بھی انہیں مساجد اور مدارس میں ہوتے تھے چناںچہ مدارس اور مساجد میں بے شمار بے نام قبریں ہیں‘ بخارا کے کورڈ بازار بھی رومانوی ہیں‘ ماضی میں دنیا جہاں سے تجارتی قافلے بخارا آتے تھے اور اپنی مصنوعات سے ان بازاروں کو بھر دیتے تھے‘ یہ بازار آج دو اڑھائی ہزار سال بعد بھی قائم ہیں‘ بخارا کے حمام بھی موجود ہیں اور ان حماموں کے کنوئوں کا ٹھنڈا پانی بھی‘ میں بخارا میں ازبک حکومت کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا‘ ازبک حکومت نے قدیم بخارا کو نہ صرف دوبارہ زندہ کر دیا ہے بلکہ یہ پرانی عمارتوں کی ’’ ٹیک کیئر‘‘ بھی کر رہی ہے چناںچہ یہاں روزانہ سینکڑوں ہزاروں سیاح آتے ہیں اور امام بخاری اور بو علی سینا کے شہر کی زیارت کرتے ہیں‘ بخارا کے لوگ بھی عاجز اور مہمان نواز ہیں‘ یہ سیاحوں بالخصوص مسلمان سیاحوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔

بخارا کا ذکر دو عمارتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا‘ ایک مینار ہے اور دوسری زیارت گاہ‘ بخارا کا مینار عظیم بھی ہے‘ پرشکوہ بھی اور شان دار بھی‘ یہ عظیم مساجد اور مدارس کے عین درمیان ایستادہ ہے‘ اس مینار کی عظمت کے لیے صرف ایک واقعہ کافی ہو گا‘ چنگیز خان نے 1220ء میں بخارا فتح کیا‘ فتح کے بعد اس نے پورا شہر گرا دیا‘ شہر کی آدھی آبادی قتل کروا دی لیکن یہ جب بخارا کے مینار کے پاس پہنچا تو اس کا شکوہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس نے کہا آج پورا بخارا میرے قدموں میں گرا ہوا ہے لیکن میں اس مینار کے قدموں میں ہوں لہٰذا عظیم چنگیز خان اس مینار کی عظمت کے سامنے جھک رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی چنگیز خان مینار کے سامنے جھک گیا‘ مینار کی عظمت آج بھی قائم ہے‘ بخارا کی سب سے بڑی زیارت گاہ حضرت بہائوالدین نقش بندؒ کا مزار ہے‘ آپؒ کامل ولی تھے‘ بخارا کے لوگ اور نقش بندی آپؒ کے مزار کی زیارت کو چھوٹا حج کہتے ہیں‘ مزار کے ساتھ پانی کا حوض ہے جسے یہ لوگ متبرک پانی سمجھتے ہیں‘ مزار پر سیاہ رنگ کا پتھر لگا ہے‘

یہ لوگ اس پتھر کو سنگ مراد کہتے ہیں‘ ان کا خیال ہے اس پتھر کو چھو کر دعا کرنے سے مراد پوری ہو جاتی ہے‘ مزار کے احاطے سے باہر پانچ چھ سو سال پرانے درخت کا تنا پڑا ہے‘ نقش بندی لوگوں کا عقیدہ ہے آپ اگر تین بار اس تنے کے نیچے سے گزر جائیں تو آپ کی مراد پوری ہو جاتی ہے‘ زائرین نے درخت پر ہاتھ پھیر پھیر کر اسے سنگ مر مر کی طرح ملائم کر دیا ہے‘ زیارت گاہ پر زائرین کا رش ہوتا ہے‘ ہمیں بھی مزار پر حاضر ہونے اور دعا کی سعادت نصیب ہوئی لیکن بخارا کا آدھا چاند اور رات کے سناٹے کا کوئی بدل نہیں تھا‘ ہم آدھی رات کو گلیوں میں گھوم رہے تھے‘ خنک ہوا شمال سے جنوب کی طرف چل رہی تھی اور اس میں خنکی کے ساتھ ساتھ گئے دنوں کی خوشبو بھی تھی‘

ان گئے دنوں کی خوشبو جب بو علی سینا‘ البیرونی‘ الخوارزمی اور امام بخاری اس شہر کی گلیوں میں علم بانٹتے تھے اور علم کے پیاسے دیوانہ وار اس شہر کی طرف دوڑتے تھے اور جب تاریخ بخارا سے شروع ہوتی اور بخارا پر آ کر مکمل ہوتی تھی اور جب علم اور ثقافت بخارا پہنچ کر رک جاتی تھی اور جب تجاری قافلوں کے جانور بھی اس شہر میں آ کر اپنی جنگلی خو بھول جاتے تھے اور وہ بھی تہذیب اور شائستگی کے ساتھ چلنے لگتے تھے اور جب علم و ادب کا سورج اس شہر کی گلیوں سے طلوع ہوتا تھا اور یورپ کی سرحدوںپر پہنچ کر ڈوب جاتا تھا اور جب علم اور وقت کا دوسرا نام بخارا ہوتا تھا اور یہ سارے گئے دن اور ان تمام گئے دنوں کی یہ ساری خوشبوئیں اس وقت بخارا کی ہوائوں میں تھیں اورہمارا گروپ اور بخارا کا آدھا چاند ان خوشبوئوں میں بہہ رہا تھا‘ تاریخ کی ندی میں لمحہ موجود کے بے آسرا تنکے کی طرح۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



بخارا کا آدھا چاند


رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا…

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…

بے ایمان لوگ

جورا (Jura) سوئٹزر لینڈ کے 26 کینٹن میں چھوٹا سا کینٹن…

صرف 12 لوگ

عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم…

ابو پچاس روپے ہیں

’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…