میں گھبرا گیا اور میں نے اس گھبراہٹ میں عرض کیا ’’ میں سٹپ ڈائون کرنا چاہتا ہوں‘ یہ میرے بس کی بات نہیں‘‘ وہ بولے ’’ کیوں‘‘ میں نے عرض کیا ’’ جناب مصروفیت کو حد سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے‘‘ میں نے حضرت علی ؓ کا وہ قول دہرایا جس میں شیر خدا نے فرمایا تھا حد سے زیادہ مصروفیت انسان کے جذبات کو کھا جاتی ہے‘ وہ بولے ’’ لیکن یہ ساری مصروفیت پیداواری اور مثبت ہے‘
اس کے نتائج نکل رہے ہیں اور لوگوں کی معاشی‘ نفسیاتی اور معلوماتی زندگی میں تبدیلی آ رہی ہے اور ایسی مصروفیت سے سٹیپ ڈائون ٹھیک نہیں ہو گا‘‘ میں نے کہا ’’ لیکن جناب یہ میری اوقات سے زیادہ ہے‘ میرے اعصاب اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے‘‘ انہوں نے قہقہہ لگایا اور پوچھا ’’ کیا تمہارے تمام اعضاء کام کر رہے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’ الحمدللہ‘ میں جسمانی لحاظ سے بالکل ٹھیک ہوں‘ روزانہ ایک گھنٹہ ایکسرسائز بھی کرتا ہوں‘‘ وہ بولے ’’ پھر تم خود کو جینز ڈومینیک بوبی کے ساتھ کمپیئر کرو‘ اس نے اپنی پوری زندگی کا بوجھ بائیں آنکھ کی پلک پر اٹھا رکھا تھا‘ وہ جب تک زندہ رہا‘ اس نے یہ بوجھ پلک سے نیچے نہیں گرنے دیا‘ یہ سٹوری تم نے مجھے خود سنائی تھی‘ تمہیں اللہ تعالیٰ نے زندگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے صحت مند جسم دے رکھا ہے جب کہ اس کے پاس صرف ایک پلک تھی‘ تم بہتر ہو یا وہ‘‘ وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’ تم آج ایک بار پھر بوبی کی کہانی سنائو لیکن آج اس کہانی کے سامع تم خود ہو گے‘‘۔میں نے چند لمحے سوچا اور اس کے بعد عرض کیا ’’ جینز ڈومینیک بوبی فرانسیسی صحافی تھا‘ یہ 23 اپریل 1952ء کو پیدا ہوا‘ تعلیم حاصل کی‘ صحافی بنا اور محنت شروع کر دی‘ یہ صحافت کے مختلف مندرجات طے کرتا ہوا پیرس کے مشہور فیشن جریدے ’’ایلی‘‘ کا چیف ایڈیٹر بن گیا‘ یہ اس کے کیریئر کی معراج تھی‘ وہ سمجھتا تھا وہ زندگی میں جو کچھ بننا چاہتا تھا وہ بن گیا ہے اور اب کام یابی اور اس کی محنت کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں‘ وہ اپنی بیوی سیلنی اور دو بچوں کے ساتھ مطمئن زندگی گزار رہا تھا‘ وہ ہفتے میں پانچ دن کام کرتا تھا اور دو دن بیوی اور بچوں کے ساتھ چھٹیاں گزارتا تھا‘ یہ لوگ جمعہ اور ہفتہ کے دن کنٹری سائیڈ پر نکل جاتے تھے‘
کیمپنگ کرتے تھے‘ کھلے کھمبوں اور جنگلوں میں وائلن بجاتے تھے اور جھیلوں اور نہروں کے کنارے لیٹ کر آدھی رات کے چاند سے باتیں کرتے تھے‘ بوبی کو پانی میں گھلتے ہوئے چاند بہت اچھے لگتے تھے‘ وہ جھیلوں کے کناروں پر بیٹھ کر پانی میں کنکر پھینکتا تھا اور دیر تک چاند کو لہروں پر کروٹ بدلتے دیکھتا تھا‘ بوبی کو ’’ ویک اینڈز‘‘ پر ریستورانوں میں کھانا کھانا‘ رقص گاہوں میں رقص کرنا اور پیرس کے گارڈنز میں جاگنگ کرنا بھی اچھا لگتا تھا‘ وہ تھیٹرز اور فلموں کا بھی رسیا تھا اور اسے
فیشن میں آنے والی تبدیلیوں میں بھی بہت دل چسپی تھی لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ 8 دسمبر 1995ء کو اس نے کرسی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس کے جسم نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا‘ وہ قومے میں چلا گیا‘ اس کا جسم‘ اس کا دماغ اور اس کی روح سب گہری نیند میں چلے گئے‘ بوبی کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ سبزی بن چکا تھا‘ اس کے پھیپھڑے آکسیجن جمع کر رہے تھے
دل خون پمپ کر رہا تھا اور یہ خون جسم میں گردش بھی کر رہا تھا لیکن اس کی حسیات جواب دے چکی تھیں‘ وہ نیند کے گہرے کنوئیں میں ڈوب چکا تھا‘ بوبی وینٹی لیٹر پر تھا اور اسے ٹیوب کے ذریعے خوراک دی جاتی تھی‘ ڈاکٹرز اسے جگانے کی کوشش کر رہے تھے‘ بیس دن بعد اس کی آنکھ کھل گئی‘ یہ جاگ گیا لیکن یہ ’’ لاک ان سینڈروم‘‘ کا شکار ہو چکا تھا‘ یہ فالج کی ایک ایسی قسم ہے
جس میں مریض کے دماغ کے علاوہ تمام جسم مفلوج ہو جاتا ہے‘ بوبی کا پورا جسم مفلوج ہو چکا تھا‘ یہ جسم کے کسی عضو کو حرکت دے سکتا تھا‘ بول سکتا تھا‘ کھا سکتا تھا اور نہ ہی چھو سکتا تھا‘یہ معذوری کی انتہائی خوف ناک قسم تھی لیکن پھر اللہ کی کیا کرنی ہوئی‘ بوبی کی سننے کی حس لوٹ آئی‘ یہ اب سن سکتا تھا اور چند دن بعد اس کی بائیں آنکھ کی بینائی اور پلکوں کی حرکت بھی واپس آگئی‘ اب بوبی کی جسمانی صورت حال کچھ یوں تھی‘ وہ گردو پیش کی آوازیں سن سکتا تھا‘ بائیں آنکھ سے
دیکھ سکتا تھا اور پلک جھپک کر اپنی پسند یا نا پسند کا اظہار بھی کر سکتا تھا‘ بوبی کی زندگی اب ایک پلک پر کھڑی تھی‘ اس نے باقی زندگی اب ایک پلک کے ذریعے گزارنا تھی اور آپ سوچ سکتے ہیں یہ دنیا کا کس قدر مشکل کام ہے۔بوبی ایک ایسی کتاب لکھنا چاہتا تھا جو رہتی دنیا تک اس کا نام قائم رکھے لیکن معذوری کے بعد اس خواہش کی تکمیل ممکن نہیں تھی تاہم بوبی کی ہمت قائم تھی لہٰذا اس نے پلک کے ذریعے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا‘ اس کی بیوی نے اس دوران اس کے ساتھ کمیونی کیشن کا
ایک طریقہ ایجاد کر لیا تھا‘ وہ بوبی سے سوال پوچھتی تھی اور بوبی جس بات پر پلک جھپک دیتا تھا اس کا مطلب ہاں ہوتا تھا اور جس بات پر وہ پلک نہیں جھپکتا تھا اس کا مطلب انکار ہوتا تھا‘ اس کی بیوی نے کتاب لکھنے کے سلسلے میں اس کی مدد کا فیصلہ کیا‘ اس نے ایک اسسٹنٹ ہائیر کیا‘ یہ اسسٹنٹ ٹائپ رائیٹر لے کر بوبی کے سامنے بیٹھ جاتا‘ اسسٹنٹ اے سے لے کر زیڈ تک حروف تہجی بولتا‘ بوبی کی بیوی بوبی کی پلک کی طرف دیکھتی رہتی اور جس حرف پر وہ پلک جھپک دیتا یہ لوگ وہ حرف ٹائپ کر دیتے‘
اس کے بعد دوبارہ حروف تہجی بولے جاتے اور بوبی جس حرف پر پلک جھپک دیتا وہ حرف بھی ٹائپ کر دیا جاتا تھا‘ یہ حروف آہستہ آہستہ لفظ بن جاتے اور لفظ تھوڑی تھوڑی دیر بعد فقرے بن جاتے‘ یہ لوگ روزانہ چار گھنٹے کتاب لکھتے تھے‘ یہ مشق ایک سال تک مسلسل جاری رہی‘ بوبی دو منٹ میں ایک لفظ مکمل کراتا تھا اور اس نے ایک سال میں 2 لاکھ مرتبہ پلک جھپکی‘ یہ کتاب 1997ء میں مکمل ہو ئی
اور چھ مارچ 1997ء کو اس کا پہلا ایڈیشن مارکیٹ میں آگیا‘ پہلے دن اس کی 25 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں‘ ہفتے میں اس کی فروخت ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی اور ایک ماہ بعد یہ کتاب یورپ کی بیسٹ سیلر بن گئی‘ آج تک یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں بک چکی ہے ‘ لوگ اس کی ہمت اور اپروچ پر حیران ہوتے ہیں‘ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو پلک سے لکھی گئی اور لکھنے والوں نے یہ کتاب ایک ایک حرف جوڑ کر مکمل کی اور بوبی نے ثابت کر دیا اگر آپ کی ایک پلک سلامت ہو تو آپ اس سے بھی کمال کر سکتے ہیں‘‘
میں خاموش ہو گیا۔ وہ مسکرائے اور بولے ’’ لیکن تم نے بوبی کے بارے میں مزید کچھ نہیں بتایا‘‘ میں نے عرض کیا ’’ یہ کتاب6 مارچ 1997ء کو مارکیٹ میں آئی ‘ بوبی کی بیوی نے بازار سے اس کی کاپی خریدی‘ بھاگتی ہوئی اس کے کمرے میں آئی‘ یہ کتاب بوبی کی زندہ آنکھ کے سامنے رکھی اور چلا کر بولی ’’ بوبی تم کام یاب ہو گئے‘ دنیا میں اب تمہارا نام ہمیشہ قائم رہے گا‘‘ بوبی کی زندہ پلک رقص کرنے لگی‘ وہ تیزی سے پلک جھپک رہا تھا‘ اس کی بیوی کو محسوس ہوا‘ وہ پلک کے ذریعے
اپنی کام یابی پر تالیاں بجا رہا ہے‘ اس کی بیوی نے بھی تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ تالیوں کی اس گونج میں بوبی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی‘وہ کتاب چھپنے کے محض تین بعد یعنی 9 مارچ 1997ء کو دنیا سے رخصت ہو گیا‘ یوں محسوس ہوتا تھا وہ اس کتاب کی تکمیل کے لیے زندہ تھا‘‘ میں خاموش ہو گیا۔وہ بولے ’’ تم اب اپنا تقابل بوبی سے کرو‘ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مکمل بنایا‘ تمہارے جسم کے تمام اعضاء کام کر رہے ہیں‘ تم دوڑتی بھاگتی متحرک زندگی گزار رہے ہو‘ تم جہاں جانا چاہتے ہو‘
اٹھ کر جوتے پہنتے ہو اور نکل کھڑے ہوتے ہو‘ تم پانی سے لے کر سیب تک اور آم سے لے کر آلو تک دنیا کی ہر چیز کا ذائقہ چکھ سکتے ہو اور تم اپنے جسم کے ایک ایک ٹشو سے زندگی کی حرارت کو محسوس کر سکتے ہو‘ تم بارش کی بوندیں گن سکتے ہو اور اپنے دائیں بائیں سورج کی بکھری ہوئی شعاعیں محسوس کر سکتے ہو‘ تمہاری زندگی کے تمام چاند بھی موجود ہیں اور تمہاری زندگی کے
سارے ذائقے اور ساری خوشبوئیں بھی زندہ ہیں لیکن تم مصروفیت کو جواز بنا کر سٹیپ ڈائون کرنا چاہتے ہو‘ تم ’’ گیو اپ‘‘ کرنا چاہتے ہو‘ دنیا میں تم سے بڑا بے وقوف‘ نالائق اور نعمتوں کا کافر کون ہو گا؟‘‘ وہ بولے ’’ انسان کا جذبہ سلامت ہو‘ یہ اپنی ہمت اور حوصلہ قائم رکھے تو یہ ایک پلک سے پوری زندگی کا بوجھ اٹھا سکتا ہے اور اگر انسان کا حوصلہ اور ہمت جواب دے جائے تو
یہ اپنی ذات میں موہن جو ڈارو بن جاتا ہے‘ تم شرم کرو‘ حوصلہ کرو‘ ہمت کرو اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرو اس نے تمہارے ایک ایک بال کو زندگی بخشی ہے‘ وہ اگر چاہتا تو زندگی کا سارا بوجھ تمہاری ایک پلک پر ڈال دیتا اور تمہیں یہ بوجھ اٹھانا بھی پڑتا‘ شکر ادا کرو اور آگے بڑھو‘ مصروفیت اللہ کی نعمت ہوتی ہے عذاب نہیں‘‘۔