’’میں گھر سے نکلنے لگا تو میں نے خلاف معمول اپنی جیبوں میں کرنسی نوٹ ٹھونسنا شروع کر دیے‘ جاوید صاحب آپ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں میں جیب میں کیش نہیں رکھتا‘ کریڈٹ کارڈ لور ہوں‘ کارڈ دیتا ہوں اور آرام سے خریداری کر لیتا ہوں لیکن اس دن میرے دل میں نہ جانے کیا آیا ؟میں نے نوٹ اٹھائے اور اپنی جیبوں میں ٹھونس لیے‘‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے
’’میری واک کا روٹ بھی طے شدہ ہوتا تھا‘ میں گھر سے نکلتا ہوں اور پانچ چھ کلو میٹر واک کر کے واپس آ جاتاہوں‘ میں اس دن بھی اس روٹ کے لیے نکلا لیکن میں بائیں مڑ گیا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا‘ میں چلتے چلتے شہر سے باہر نکل گیا‘ میرے سامنے مضافاتی علاقہ تھا اور میں پگڈنڈیوں پر چلتا ہوا بڑی شاہراہ سے دیہی علاقے میں آ گیا‘ میں اس طرف کیوں نکل آیا تھا میں نہیں جانتا تھا‘ سامنے فروٹ کی ریڑھی تھی‘ میں نے سوچا میں تھوڑا سا فروٹ لے لیتا ہوں اور کھاتا ہوا واک کرتا ہوں‘ میں ریڑھی والے کے پاس رک گیا‘ اس نے لالچی نظروں سے مجھے دیکھا اور دانت نکال کر بولا‘ کیا کیا لیں گے؟ میں نے بے اختیاری کے عالم میں کہا‘ دو بڑے لفافے بھر دو لیکن فروٹ شان دار ہونا چاہیے‘ اس نے دو بڑے شاپر بھر کر میرے ہاتھ میں پکڑا دیے‘ شاپر بہت بھاری تھے‘ میں نے بیگ دونوں ہاتھوں میں اٹھائے اور آگے چل پڑا مگر تھوڑی دیر بعد اپنی بے وقوفی کا احساس ہونے لگا‘ کیا کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھوں میں فروٹ کے تھیلے اٹھا کر واک کر سکتا ہے؟ یہ میں نے کیا کیا اور کیوں کیا؟ میں یہ سوچتا جا رہا تھا اور چلتا جا رہا تھا‘ مجھے اچانک چنگ چی رکشے پر دو خواتین نظر آئیں‘ وہ فروٹ کی طرف للچائی نظروں سے دیکھ رہی تھیں‘ میں نے بے اختیار ہو کر دونوں کو ایک ایک تھیلا پکڑا دیا‘ دونوں نے تھیلے کو بچے کی طرح گود میں لے لیا‘ مجھے ایک عجیب سا سکون محسوس ہوا اور مجھے پہلی بار احساس ہوا میں نے یہ فروٹ شاید ان خواتین کے بچوں کے لیے خریدا تھا‘ کوئی تھا جس نے مجھے فروٹ خریدنے اور پھر یہ دونوں تھیلے ان خواتین کے حوالے کرنے پر مجبور کر دیا‘ میں نے ایک لمبی سانس لی اور آگے چل پڑا‘‘۔یہ میری نہیں ضیاء الرحمن کی کہانی ہے‘
ضیاء الرحمن ’’آئی بیکس‘‘ کے مستقل ممبر ہیں‘ یہ ہمارے گروپس میں ہمارے ساتھ گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ ’’میٹل سکریپ‘‘ کا کام کرتے ہیں‘ ملتان سے تعلق رکھتے ہیں‘ آفس دوبئی میں ہے اور دوسرا گھر استنبول میں‘ استنبول‘ دوبئی اور ملتان تین شہروں کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں اور فالتو وقت میں ہمارے ساتھ نکل کھڑے ہوتے ہیں‘ ان سے پہلی ملاقات مراکو کے ٹور میں ہوئی تھی‘
ہم نے فیض شہر میں پندرہ کلومیٹر کا پیدل چکر لگایا اور دوستی کے بندھن میں بندھ گئے‘ استنبول میں بھی اٹھارہ کلومیٹر کر گئے اور اب ان شاء اللہ مصر میں بھی دوسری مرتبہ فرعونوں کا پیچھا کریں گے‘ یہ چند دن قبل اسلام آباد آئے اور ہم نے اکٹھی واک کی‘ واک کے دوران ضیاء الرحمن نے ملتان کی ایک واک کی دل چسپ داستان سنائی‘ ان کا کہنا تھا‘یہ خلاف معمول گھر سے کیش لے کر
نکلے اور شہر سے دیہاتی علاقے کی طرف چلے گئے‘ وہ بولے’’ میں فروٹ ٹھکانے لگانے کے بعد آگے چل پڑا‘ مجھے راستے میں ایک چار پائی پر تین بچے بیٹھے دکھائی دیے‘ میں نے بے اختیار جیب میں ہاتھ ڈالا‘ نوٹ نکالے اور بچوں کو پکڑا دیے‘ بچے نوٹ کھول کر حیرت سے دیکھنے لگے‘ میں آگے چل پڑا‘ تھوڑی دیر بعد ایک موٹر سائیکل میرے قریب رکا اور کسی نے مجھے
مخاطب کر کے کہا‘ آپ نے میرے بچوں کو پیسے کیوں دیے؟ میں نے گھبرا کر کہا‘ مجھے یہ بچے اچھے لگے چناں چہ میں نے انہیں اپنا بھتیجا سمجھ کر تھوڑے سے پیسے دے دیے‘ آپ کو برا لگا تو میں آپ سے معافی چاہتا ہوں‘ وہ شخص تھوڑا سا ایزی ہو گیا اور اس نے کہا‘ میں نے سوچا شاید آپ نے ان پر ترس کھا کر ان کی مددکی‘ میں نے اس سے پوچھا‘ میں کیوں ترس کھائوں گا‘ کیا بچوں کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے؟ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور بولا‘ یہ میرے بچے ہیں‘ ان تینوں کو
بہت کم نظر آتا ہے‘ ان کی بینائی کم ہوتی جا رہی ہے‘ میں نے افسوس کیا اور مجھے ساتھ ہی یاد آگیا میں نے آنکھوں کے سپیشلسٹ سے والدہ کے لیے وقت لے رکھا ہے‘میں نے اس سے فوراً کہا‘ آپ اگر برا نہ منائیں تو میں آپ کے بچوں کو ڈاکٹر کو دکھا سکتا ہوں‘ اس نے ممنونیت سے میری طرف دیکھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر میرا شکریہ ادا کیا‘ میں نے اسے اپنا نمبر دیا اور اس کا نمبر لے لیا‘ میں نے نیت کی میں ان تینوں بچوں کا علاج کرائوں گا‘ خواہ مجھے کتنی ہی رقم کیوں نہ خرچ کرنی پڑے‘
میں آگے چل پڑا‘ تھوڑی دور جانے کے بعد مجھے پیاس محسوس ہوئی‘ میرے سامنے گائوں کی چھوٹی سی دکان تھی‘ میں نے پانی کی بوتل خریدی‘ ادائیگی کرنے لگا تو جیب میں چھوٹا نوٹ نہیں تھا‘ میں نے دکان دار سے کہا آپ باقی رقم کسی ضرورت مند کو دے دینا‘ وہ مسکرایا اور بولا‘ جناب ضرورت مند کو اپنے ہاتھ سے دینا چاہیے‘ میں نے ایک لمحہ سوچا اور پھر پوچھا‘ کیا تم کسی بیوہ کو جانتے ہو‘ اس نے چونک کر میری طرف دیکھا اور کہا‘ ہمارے محلے میں چند دن قبل ایک خاتون بیوہ ہوئی ہے‘
وہ بہت ضرورت مند ہے‘ میں نے پتا پوچھا تو اس نے ایک بچہ میرے ساتھ کر دیا‘ میں گندی نالیوں اور کچی گلیوں سے ہوتا ہوا ایک انتہائی بدحال گھر کے سامنے پہنچ گیا‘ دروازہ بجایا‘ ایک نوجوان باہر آ گیا‘ پتا چلا گھر میں ایک بیوہ اور اس کی چھ بچیاں رہتی ہیں‘ وہ نوجوان بڑی بیٹی کا خاوند تھا اور پورے خاندان کا واحد کفیل تھا‘ میں نے اس سے پوچھا‘ کیا میں آپ کی ساس سے مل سکتا ہوں‘
اس نے افسردہ لہجے میں جواب دیا‘ وہ عدت میں ہیں باہر نہیں آ سکتیں‘ میں نے اپنی جیبیں خالی کر دیں‘ سارے نوٹ اس کے حوالے کر دیے‘ اپنا فون نمبر اس کو دیا اور پانچوں بچیوں کی ذمہ داری اٹھا لی‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا‘ میں نے آنکھیں صاف کیں اور واپس چل پڑا‘‘۔ضیاء الرحمن رکے‘ لمبی سانس لی اور بولے ’’میں واپسی پر سوچ رہا تھا میں آج ادھر خود نہیں آیا‘ مجھے زبردستی بھیجا گیا تھا‘ مجھے صبح سے محسوس ہو رہا تھا مجھے کسی سمت دھکیلا جا رہا ہے‘ میں لمبی
واک نہیں کر سکتا لیکن اس دن میں نے 32 ہزار قدم اٹھائے‘ میں کیش لے کر گھر سے نہیں نکلتا‘ اس دن کسی نے مجھے زبردستی کیش لے جانے پر مجبور کیا‘ میں اپنے روٹ پر واک کرتا ہوں لیکن اس دن میرے قدم بے اختیار ہو گئے اورمیں پھر ایک خودکار سسٹم کے تحت آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا‘ یہ کیا تھا؟ مجھے سمجھ نہیں آ رہی ‘ کیا آپ مجھے سمجھا سکتے ہیں‘‘ میں نے ہنس کر عرض کیا ’’ضیاء صاحب آپ اوبر یا کریم کے سسٹم کو جانتے ہیں‘‘ وہ حیرت سے بولے ’’نہیں‘ میں نہیں جانتا‘‘
میں نے عرض کیا ’’آپ فرض کریں آپ بے روزگار ہیں لیکن آپ ایک گاڑی کے مالک ہیں اور آپ خود کو کریم یا اوبر میں رجسٹر کرا دیتے ہیں‘ اوبر آپ کو اپنے سسٹم میں ڈال دیتا ہے‘ اب جوں ہی کسی شخص کو ٹیکسی کی ضرورت پڑتی ہے وہ ایپلی کیشن پر جا کر اپنی لوکیشن بتاتا ہے اور وہ جہاں جانا چاہتا ہے وہ ایڈریس ٹائپ کر دیتا ہے اور ایپلی کیشن فوراً اپنے سسٹم میں موجود قریب ترین گاڑیوں کو اطلاع دے دیتی ہے اور قریب ترین ڈرائیور مسافر کی طرف چل پڑتا ہے‘‘ میں خاموش ہو گیا‘
ضیاء الرحمن نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پوچھا ’’لیکن سر اس کا میرے سوال کے ساتھ کیا تعلق ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’بڑا گہرا تعلق ہے‘ قدرت کا بھی ایک اوبر سسٹم ہے‘ ہم میں سے جب بھی کوئی شخص مجبوری‘ مشکل یا تکلیف میں اللہ تعالیٰ سے رابطہ کرتا ہے تو سسٹم اس کی فریاد اپنی ایپلی کیشن میں ڈال دیتا ہے اور اس کی کال قریب ترین موجود اللہ کے کسی بندے سے مل جاتی ہے اور وہ فوراً آپ کی طرح جیبوں میں نوٹ ٹھونس کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور یوں ضرورت مند کی
ضرورت پوری ہو جاتی ہے‘ اس دن ان چاروں لوگوں نے اللہ سے فریاد کی ہو گی‘ فروٹ کی ضرورت مند خواتین یا ان کے بچوں نے اللہ سے پھل مانگا ہو گا‘ بینائی کی کمی کے شکار بچوں یا ان کے والدین نے اللہ سے نور مانگا ہو گا اور چھ بچیوں کی بیوہ ماں نے اللہ سے کہا ہو گا یا باری تعالیٰ میرے سر کا سایہ بھی اٹھ گیا‘ میں اب ان بچیوں کو کیسے کنارے لگائوں گی اور اللہ نے یہ چاروں فریادیں آپ کے مائینڈ کے ڈیش بورڈ پراتار دیں‘ آپ نے جاگر پہنے اور آپ اللہ کے جی پی ایس کی ڈائریکشن پر چلتے ہوئے
ان کے دروازوں تک پہنچ گئے‘‘ ضیاء الرحمن نے چلتے چلتے سسکی لی اور اس کے منہ سے سبحان اللہ نکل گیا‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’ضیاء صاحب آپ یاد کریں‘ آپ نے خود کو تازہ تازہ قدرت کے اوبر سسٹم پر رجسٹر کرایا ہو گا‘ آپ نے قبولیت کی کسی گھڑی میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہو گی یا باری تعالیٰ مجھے اپنی مخلوق کی خدمت کی توفیق دے دے‘ اللہ نے آپ کی دعا قبول کر لی اور یوں آپ قدرت کے اوبرسسٹم میں رجسٹرڈ ہو گئے‘ آپ نے ایک ہی دن میں 32 ہزار قدم چل کر نیکیاں سمیٹیں اور 32 سال کا فاصلہ طے کر لیا‘ آپ کو مبارک ہو‘‘ ضیاء الرحمن نے لمبی سانس لی اور تیز تیز تسبیح کرنے لگے۔