وہ پانی پت کے گاؤں شہرا ماپور میں پیدا ہوئی‘ والد غریب کسان تھا‘ خاندان ہریانہ کے لہجے میں گفتگو کرتا تھا‘ یہ ایک اکھڑ اور بدتمیز لہجہ ہے اورکہا جاتا ہے ہریانہ کا کوئی بندہ خواہ بھگوان کے سکول میں بھی پڑھ لے تو وہ اپنے لہجے سے فوراً پہچانا جائے گا‘ جھانوی پرور کی پرورش اس لہجے اور اس ماحول میں ہوئی‘ یہ پکی ہریانوی تھی‘ رنگ بھی کالا تھا‘ قد بھی چھوٹا تھا اور قدرت نے اسے نین نقش بھی واجبی دیے تھے چناں چہ یہ ہر لحاظ سے خوش حالی‘ تہذیب‘ تعلیم اور جسمانی خوب صورتی سے محروم تھی لیکن پھر اس کی زندگی میں ایک چھوٹا سا طعنہ آیا اور اس طعنے نے اس کا مقدر بدل دیا۔
جھانوی میں نقل اتارنے کی قدرتی صلاحیت تھی‘ یہ مامی‘ چچی‘ پھوپھو‘ گلی کے پھیرے بازوں اور ریڈیو ٹی وی کے اناؤنسرز کی ہوبہو نقل اتار لیتی تھی اور یہ کام یہ سارا دن جی بھر کر کرتی تھی‘ اس نے ایک دن چلتے پھرتے ٹیلی ویژن پر انگریزی کا کوئی شو دیکھا‘ اسے اینکر کا لہجہ پسند آ گیا اور اس نے اس کی نقالی شروع کر دی‘ یہ اس کے لہجے میں انگریزی بولنے لگی‘ اسے لفظ نہیں آتے تھے لیکن یہ پکا سا منہ بنا کر انگریزی لہجے میں باتیں کرتی رہتی تھی‘ گھر ہو‘ محلہ ہو یا سکول ہو یہ ہر جگہ اس انگریز کے لہجے میں بات کرتی تھی‘ یہ تیسرے دن گلی سے گزر رہی تھی‘ گزرتے گزرتے انگریز بن کر بات کرتی جا رہی تھی‘ محلے دار اسے دیکھ رہے تھے اور کھی کھی کر کے ہنس رہے تھے‘ اس کے ایک رشتے دار کو یہ مذاق برا لگا‘ وہ اس کے پاس گیا اور غصے سے بولا ”اے چھوری تو بڑی انگریج بن کر پھر رہی ہے‘ بس کر‘ بند کر یہ ناٹک“ رشتے دار کے طعنے میں کچھ ایسا تھا جس نے جھانوی پرور کو نئی راہ دکھا دی اور اس نے سوچا ”مجھے انگریج کی نقل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں انگریج بن جاتی ہوں“ یہ سیدھی گھر گئی‘ والد کا ٹیپ ریکارڈ لیا‘ بی بی سی لگایا‘ خبریں ریکارڈ کیں اور برٹش لہجے میں انگریزی سیکھنا شروع کر دی‘ قدرت نے اسے شان دار یادداشت سے نواز رکھا تھا‘ یہ جو لفظ سنتی تھی‘ وہ اس کے ذہن میں چپک جاتا تھا‘ جھانوی تین ماہ میں برطانوی لہجے میں فرفر انگریزی بولنے لگی۔
سکول نے اسے ڈبیٹنگ کلب میں ڈال دیا‘ یہ انگریزی کے تقریری مقابلوں میں شریک ہونے لگی اور ہر بار جیت کر واپس آتی‘ والد نے اس کا ٹیلنٹ دیکھ کر اسے سپورٹ کرنا شروع کر دیا‘ جھانوی کو چند ماہ بعد پتا چلا‘ انگریزی زبان ایک ہے لیکن دنیا میں انگریزی کے 9 بڑے لہجے ہیں‘ اس نے یہ سارے لہجے سیکھنا شروع کر دیے‘ والد اس کو مختلف لہجوں کے کورس اور کیسٹ لا کر دیتا اور یہ ان لہجوں کی پریکٹس کرتی رہتی تھی‘ اس نے مقابلے جیت جیت کر رقم جمع کی اور کمپیوٹر خرید لیا۔
کمپیوٹر نے اس کی کیسٹس اور ٹیپ ریکارڈر سے جان چھڑا دی‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے یہ لڑکی دس سال کی عمر میں برٹش‘ امریکن‘ کینیڈین‘ سکاٹش‘ نارفوک‘ کوکنی‘ پوش اور آسٹریلین لہجے میں انگریزی بولنا سیکھ گئی‘ اس کا لہجہ اس قدر پختہ تھا کہ بڑے سے بڑے استاد بھی چکرا جاتے تھے‘ یہ حیران کن صلاحیت تھی چناں چہ یہ بڑی تیزی سے پورے بھارت میں مشہور ہوتی چلی گئی‘ حکومت نے 2015ء میں اسے ممبئی انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن میں سرکاری افسروں سے خطاب کی دعوت دی۔
اس کی عمراس وقت صرف بارہ سال تھی اور یہ انسٹی ٹیوٹ کی ہسٹری میں افسروں سے خطاب کرنے والی پہلی بچی تھی‘جھانوی نے مختلف لہجوں میں تقریر کر کے تمام بیورکریٹس کو حیران کر دیا‘ حکومت نے اس کے بعد اسے انسٹی ٹیوٹ کا مستقل سپیکر بنا دیا‘ یہ سال میں درجن مرتبہ انسٹی ٹیوٹ جاتی ہے اور نئے اور پرانے بیورو کریٹس کو اچھی انگریزی بولنے اور سمجھنے کی ٹریننگ دیتی ہے‘ یہ صرف یہاں تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے انگریزی کے بعد فرنچ‘ سپینش اور جاپانی زبان بھی سیکھ لی۔
یہ تینوں زبانیں بھی روانی سے بول لیتی ہے‘ اس کی عمر اس وقت 18 سال ہے اور یہ بھارت میں ”ونڈر گرل آف انڈیا“ کہلاتی ہے‘ اسے ٹیلی ویژن شوز میں بلایا جاتا ہے‘ یہ اکیڈمیز‘ انسٹی ٹیوٹس اور ڈبیٹنگ پلیٹ فارمز پر تقریریں کرتی ہے اور یہ بچپن ہی میں خوش حال ہو چکی ہے۔مجھے یو ٹیوب پر اس کی چند تقریریں سننے کا اتفاق ہوا‘ اس کی ہر تقریر کے کروڑ کروڑ ویورز تھے‘ اس نے ہر تقریر میں طعنے مارنے والے لوگوں کو اپنا محسن قرار دیا‘ اس کا کہنا تھا یہ تمام لوگ میرے ہیلپر تھے۔
یہ لوگ اگر میری زندگی میں نہ آتے تو میں ہریانہ میں گم نام زندگی گزار رہی ہوتی‘ یہ وہ لوگ تھے جو مجھے طعنے مارتے رہے اور میں ان کے طعنوں کے کندھوں پر چڑھ کر آگے بڑھتی رہی‘ مجھے لوگ شروع میں کہتے تھے ”تم بڑی انگریج بن رہی ہو“ اور میں نے یہ طعنہ سن کر انگریز بننے کا فیصلہ کر لیا‘ پھر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ”یہ کیا بڑی بات ہے‘ انگریزوں کی نقل ہی تو اتارتی ہے“ میں نے یہ طعنہ سنا تو میں نے انگریزی سیکھ لی‘ پھر کسی نے کہا ”یہ برٹش ایکسنٹ ہے۔
امریکی لہجے میں انگریزی بولے تو پھر دیکھیں گے“ اور میں نے نو کے نو لہجے سیکھ لیے‘ پھر کسی نے کہا ”یہ صرف انگریزی بول سکتی ہے“ میں نے یہ سن کر فرنچ‘ سپینش اور جیپنیز بھی سیکھ لی‘ پھر کسی نے کہا ”لفظ کچھ نہیں ہوتے‘ یہ تو طوطے بھی سیکھ لیتے ہیں‘ اصل چیز وزڈم ہوتی ہے‘ یہ لڑکی وہ کہاں سے لائے گی“ اورمیں نے وزڈم بھی حاصل کر لی‘ میں موٹی ویشنل سپیکر بن گئی اور پانچ پانچ سو لوگوں میں کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگی چناں چہ لوگ طعنے مارتے رہے اور میں آگے سے آگے بڑھتی رہی یہاں تک کہ میں سوا ارب آبادی کے ملک میں ونڈر گرل بن گئی“۔
جھانوی کا کہنا تھا ”طعنے دینے والے لوگ‘ آپ کا مذاق اڑانے والے منفی رشتے دار بنیادی طور پر آپ کے ہیلپر ہوتے ہیں‘ آپ اگر ان لوگوں کو پازیٹو لیں‘ آپ اگر ان کی باتوں کو اپنے لیے چیلنج بنا لیں تو پھر آپ زندگی میں بہت آگے نکل جاتے ہیں اور میں نے یہ کیا“۔ میں نے یوٹیوب پر جھانوی کی باتیں سنیں اور میں دیر تک اکیلا بیٹھ کر تالیاں بجاتا رہا اور اپنے آنسو صاف کرتا رہا۔ہمارے رشتے داروں اور دوستوں کے طعنے ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ ہم نے بس ان کو مثبت لینا ہوتا ہے‘ میں پاکستان کے تین ایسے نوجوانوں کو جانتا ہوں جنہیں لوگوں کے طعنوں نے جھانوی کی طرح سٹار بنا دیا۔
یہ تینوں سی ایس پی افسر ہیں اور یہ تینوں انتہائی پس ماندہ علاقوں سے نکل کر سامنے آئے‘ پہلا افسر ڈی ایم جی ہے‘ یہ سندھ کے دور دراز گاؤں سے تعلق رکھتا تھا‘ مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا‘ باریش تھا اور زندگی میں کبھی اپنے گاؤں سے باہر نہیں نکلا تھا‘ بی اے بھی پرائیویٹ کیا تھا لیکن پھر سی ایس ایس کا امتحان دیاا ور پہلی کوشش ہی میں ڈی ایم جی میں آگیا‘ میں نے اس سے کام یابی کے وجہ پوچھی تو اس نے مجھے چھوٹا سا ٹوٹا ہوا ریڈیو دکھا دیا‘ اس کا کہنا تھا‘ دنیا میں اللہ کے بعد یہ میرا سب سے بڑا محسن ہے۔
میں نے تفصیل جاننا چاہی‘ اس نے بتایا”میں اس سے روز بی بی سی کی خبریں سنتا تھا‘ اناؤنسر کے لہجے کی نقل کرتا تھااور خبروں کے مواد کو اپنے ذہن میں اتار لیتا تھا چناں چہ مجھے انگریزی بھی آ گئی اور میرے پاس علم کا انبار بھی لگ گیا‘میں نے اس سے سی ایس ایس کر لیا“۔ دوسرا نوجوان اس وقت ایس پی ہے‘ یہ سکول ٹیچر کا بیٹا تھا‘ گاؤں میں بجلی تک نہیں تھی‘یہ لالٹین کی روشنی میں پڑھتا تھا‘ اس نے ہسٹری کی کتابوں سے انگریزی کے دو سو شان دار ترین فقرے رٹ لیے اور یہ سی ایس ایس کر گیا۔
تیسرا نوجوان بھی پولیس سروس میں ہے‘ یہ یتیم تھا‘ ماموں کی بھینسیں چراتا تھا‘ یہ بھینسیں چراتے ہوئے کتابیں پڑھتا رہتا تھا‘ اس کے رشتے دار اس کا مذاق اڑاتے تھے ”اوئے بھینسوں پر توجہ دیا کرو‘ تم نے پڑھ کر کون سا باؤ بن جانا ہے“ اور اس نے یہ طعنہ سن کر باؤ بننے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے بھینسیں چراتے چراتے سی ایس ایس کی تیاری کی‘ امتحان دیا اور پاس ہو گیا‘ انٹرویو کے دن اس نے لنڈے کی پتلون پہن رکھی تھی اور یہ ٹائی کے بغیر بورڈ کے سامنے پیش ہوا تھا‘ بورڈ نے ٹائی نہ لگانے پر اعتراض کیا تو اس نے جواب دیا ”سر میرے پاس ٹائی نہیں تھی‘ میں نے پتلون بھی لنڈے کی پہن رکھی ہے“۔
یہ آج کل ایس ایس پی ہے اوریہ اپنے علم سے لوگوں کو حیران کر دیتا ہے‘یہ تینوں لوگوں کے طعنوں کی پیداوار ہیں‘ یہ پڑھتے تھے تو لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے‘ قہقہے لگاتے تھے‘ لوگ قہقہے لگاتے رہے‘ ان کا مذاق اڑاتے رہے اور یہ چیونٹی کی طرح ایک ایک انچ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ہنسنے والے پیچھے رہ گئے اور یہ آسمان پر اڑنے لگے‘ میں نے کسی جگہ پڑھا تھا‘ ہم سب اندر سے پٹرول سے بھرے ہوتے ہیں‘ ہمیں بس چنگاری چاہیے ہوتی ہے اور دنیا کی بہترین چنگاری دوسروں کے طعنے ہوتے ہیں‘ یہ ہم میں آگے بڑھنے کی ”برننگ ڈیزائر“ پیدا کرتے ہیں۔
یہ ہمیں یہ بتاتے ہیں ”جھانوی تمہارے پاس کام یاب ہونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں“ اور ہم کام یاب ہو جاتے ہیں‘جھانوی نے سچ کہا تھا‘ طعنے دینے والے لوگ آپ کے دشمن نہیں ہوتے‘ یہ آپ کے ہیلپر ہوتے ہیں‘ آپ نے بس ان لوگوں اور ان کے طعنوں کو گائیڈ لائین سمجھنا ہے‘ آپ پھر دیکھیں یہ آپ کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیں گے۔بل گیٹس نے کہا تھا‘ آپ غریب پیدا ہوئے ہیں‘ اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں لیکن آپ اگر غریب فوت ہو گئے تو پھر صرف اور صرف آپ ذمہ دار ہیں۔
میں اکثر اس فقرے کو تھوڑا سا بدل دیتا ہوں‘ میں عرض کرتا ہوں‘ آپ سوشل میڈیا سے پہلے ناکام اور جاہل تھے تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں لیکن آپ اگر آج سوشل میڈیا اور فائیو جی کے دور میں بھی جاہل اور ناکام ہیں تو پھر ذمہ دار صرف اور صرف آپ ہیں‘جھانوی جیسے بچے اگر ریڈیو سن کر ”ونڈر گرل“ بن سکتے ہیں تو ذرا آپ سوچیے!آپ یوٹیوب کے ذریعے کہاں سے کہاں پہنچ سکتے ہیں؟ آپ نے بس طعنے سننے ہیں اور یوٹیوب کو اپنا استاد‘ اپنا مرشد بنا لینا ہے‘ میں گارنٹی دیتا ہوں آپ ان شاء اللہ جھانوی پرور سے بھی آگے نکل جائیں گے۔