عمارت خریدی اور اسے میوزیم کا درجہ دے دیا‘ گلی کے اندر‘ دکانوں کے درمیان ایک بڑا پھاٹک ہے‘ پھاٹک کے اندر پرانی ڈیوڑھی ہے اور ڈیوڑھی کی دونوں دیواروں پر عاشقوں نے رنگ برنگی مارکروں‘ نیل پالش اور خون سے ایک دوسرے کے نام لکھے ہیں‘ دیواروں پر کم وبیش دو تین کروڑ عاشقوں کے نام ہوں گے‘ یہ دیواریں آپ کو دیواریں کم اور آرٹ کا نمونہ زیادہ دکھائی دیتی ہیں‘ ڈیوڑھی کے بعد صحن آتا ہے‘ صحن کی سامنے کی دیوار پر سبز بیل چڑھی ہے‘ بیل کے سائے میں جولیٹ کا کانسی کا مجسمہ ایستادہ ہے‘ مجسمے کے ساتھ تصویر بنوانا یہاں کی عاشقانہ روایت ہے‘ مرد حضرات مجسمے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور مجسمے کے ایک خاص حصے پر ہاتھ رکھ کر تصویر بنواتے ہیں‘ مجسمے کا وہ خاص حصہ اس کثرت استعمال سے سیاہ ہو چکا ہے‘ مجسمے کے پیچھے دیوار پر سینکڑوں چٹیں لگی ہیں‘ یہ چٹیں عاشقوں کے ”لو میسج“ ہیں‘ دیوار پر نام بھی لکھے ہیں اور بائیں جانب ہزاروں تالے بھی لٹک رہے ہیں‘ مجسمے کے دائیں جانب گھر کا دروازہ ہے اور دروازے سے ذرا سا ہٹ کر دنیا کی وہ مشہور ترین بالکونی ہے جس کی ”زیارت“ کےلئے ہر سال کروڑوں لوگ ورونہ آتے ہیں‘ آپ کو جولیٹ کی بالکونی اور بیڈروم تک جانے کےلئے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے‘ ٹکٹ میں جولیٹ کے مقبرے کی ”زیارت“ بھی شامل ہے‘ ہم لوگ ٹکٹ لے کر پہلی منزل پر پہنچ گئے‘ وہاں بالکونی پر کھڑے ہونے اور تصویر کھنچوانے کےلئے قطار لگی تھی‘ ہم بھی اپنی باری پر اس بالکونی پر پہنچ گئے جہاں کبھی رومیو چھپ کر آتا تھا اور جولیٹ بے تابی سے اس کا انتظار کرتی تھی‘ دیواروں پر بارہویں‘ تیرہویں اور چودھوی صدی کے مشہور اطالوی مصوروں کی پینٹنگز لٹک رہی تھیں‘ دوسری منزل پر گھر کا سٹیک روم‘ آتش دان اور ڈائننگ روم تھا جبکہ جولیٹ کا بیڈروم تیسری منزل پر تھا‘ بیڈروم میں جولیٹ کا بیڈ اور لباس رکھا تھا‘ یہ بیڈ اور لباس اصل نہیں ہیں‘ یہ 1968ءمیں بننے والی ہالی ووڈ کی فلم رومیو جولیٹ کا کاسٹیوم اور بیڈ تھا‘ بیڈروم کی بالائی منزل پر چار کمپیوٹر اور خط لکھنے کا سامان رکھا تھا‘ آپ کمپیوٹرز پر جولیٹ کو ای میل کر سکتے ہیں اور آپ کو جولیٹ کی طرف سے ای میل کا باقاعدہ جواب بھی آتا ہے‘آپ وہاں مرحومہ کو خط بھی لکھ سکتے ہیں اور جولیٹ کی طرف سے آپ کے پتے پر جواب بھی آتا ہے‘ چوتھی منزل پر گھر کے مزید دو بیڈ روم تھے‘ جولیٹ کا گھر بارہویں صدی کے خوبصورت گھروں میں شمار ہوتا تھا‘ چھتیں اور فرش لکڑی کے ہیں اور دیواریں پتھروں اور چونے سے بنی ہیں‘ گھر میں شیکسپیئر کی تصویریں اور اس کے ڈرامے کے ڈائیلاگ بھی آویزاں ہیں‘ ہم وہاں سے جولیٹ کے مقبرے پر آگئے‘ مقبرہ گھر سے بیس منٹ کی واک پر ہے‘ یہ مقبرہ وقت کی گرد میں دفن ہو گیا ہوتا لیکن مقبرے پر چرچ بن گیا اور چرچ کی وجہ سے یہ مقبرہ زندہ رہ گیا‘ چرچ اب تقریباً ختم ہو چکا ہے تاہم مقبرہ آج بھی موجود ہے۔
ہم ورونہ سے نکلے تو ہم لوگ گورے کی مارکیٹنگ کے قائل ہو گئے‘ گورے نے معمولی سی داستان کو اساطیری شکل دے دی‘ دنیا بھر سے کروڑوں لوگ ہر سال یہاں آتے ہیں‘ یہ لوگ شہر کی معیشت میں پٹرول کی حیثیت رکھتے ہیں‘ جولیٹ کی وجہ سے ورونہ میں سینکڑوں دکانیں چل رہی ہیں‘ ٹرانسپورٹ کا بزنس‘ ہوٹلوں کا کاروبار‘ گائیڈز کی روزی‘ ریستوران اور کافی شاپس چل رہی ہیں چنانچہ جولیٹ کو یہاں وہ مقام حاصل ہے جو برصغیر کے پرانے شہروں میں زندہ پیروں کو حاصل تھا‘ بی بی کی وجہ سے آٹھ سو سال سے لاکھوں لوگوں کا روزگار چل رہا ہے‘ ایک گورے ہیں جو آٹھ سو سال سے جولیٹ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ایک ہم ہیں جو آج تک سوہنی مہینوال‘ ہیر رانجھا اور سسی پنوں پر شرمندہ ہیں‘ ہم شرمندہ کیوں ہیں اور گورے رومیو جولیٹ پر کیوں فخر کرتے ہیں‘