حفیظ پیرزادہ افتخار چودھری سے یہ بھی پوچھیں گے آپ نے عدلیہ سے آراوز کیوں نامزد کئے؟ آپ نے 8 اپریل 2013ءکو آر اوز سے خطا ب کیوں کیا؟۔ حفیظ پیرزادہ سپریم کورٹ سے آراوز کی تقرری کا خط جاری ہونے کے بعد سپریم کورٹ اور افتخار چودھری کا ٹیلی فون ریکارڈ بھی طلب کریں گے اور یہ آراوز کو بھی جرح کیلئے بلانے کی درخواست کریں گے‘یہ افتخار چودھری سے یہ بھی پوچھیں گے‘ آپ الیکشن میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے تھے اور آپ کے کون کون سے دوست آپ کو ریٹائرمنٹ کے بعد صدر پاکستان دیکھنا چاہتے تھے؟۔
میرا خیال ہے کمیشن کی سماعت اگر اس رخ پر نکل گئی تو میاں نواز شریف منظم دھاندلی میں ملوث پائے جائیں یا سعد رفیق کی طرح بے گناہ ثابت ہوجائیں لیکن نقصان بہر حال انہیں اور ان کی حکومت کو ہوگا‘ یہ نئے الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائیں گے یا پھر یہ بھی خواجہ سعد رفیق کی طرح قانونی راستوں پر دوڑ دوڑ کر اپنی مدت پوری کریں گے آپ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھیں جوڈیشل کمیشن سے قبل اور جوڈیشل کمیشن کے بعد کی صورتحال میں بہت فرق ہے‘ جوڈیشل کمیشن سے قبل تمام سیاسی جماعتیں میاں نواز شریف کے ساتھ تھیں لیکن کمیشن کے قیام کے بعد یہ جماعتیں اب کمیشن کے ساتھ ہیں اور اگر میاں نواز شریف نے کمیشن کے فیصلے کا احترام نہ کیا تو یہ سیاسی جماعتیں کمیشن کے فیصلے کے ساتھ کھڑی ہو جائےں گی‘ ان جماعتوں میں پاکستان پیپلزپارٹی اور بلوچستان کی حکمران جماعت نیشنل پارٹی پیش پیش ہو گی کیونکہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جوڈیشل کمیشن پر پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے واحد گواہ اور واحد ضامن ہیں‘ معاہدے پر ڈاکٹر مالک بلوچ کے دستخط بھی موجود ہیں اور یہ اپنی گواہی کا پاس رکھنے کیلئے اپنی حکومت تک قربان کر دیں گے چنانچہ این اے 125 کے ”معمولی سے فیصلے“ نے جھاڑو کی وہ گرہ کھول دی جس کے بعد اس کے تنکاتنکا ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں‘ حکومت کو چاہیے یہ اب خود ہی الیکشن کرانے کا اعلان کر دے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو جائے عمران خان اور میاں نواز شریف کی ضد دونوں کو فارغ کرا دے‘ کیوں؟ کیونکہ بنگلہ دیش ماڈل آج بھی فائلوں میں موجود ہے‘ یہ فائل ابھی کلوز نہیں ہوئی‘ ابھی تو پارٹی باقی ہے جناب!۔
ابھی تو پارٹی باقی ہے
7
مئی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں