ہم پہلے قانونی پہلو ڈسکس کرتے ہیں‘ الیکشن ٹریبونل کے جج جاوید رشید محبوبی نے چار مئی کو این اے 125 میں انتخابی دھاندلی کا فیصلہ سنایا‘ یہ فیصلہ 80 صفحات پر مشتمل تھا‘ فیصلے میں بتایا گیا حلقہ این اے 125 میں 263 پولنگ سٹیشنز تھے‘ 17 پولنگ سٹیشنر منتخب کئے گئے‘7 پولنگ سٹیشنز کے ووٹوں کی پڑتال ہوئی‘ 1352 ووٹ ”ویری فی کیشن“ کےلئے نادرا بھجوائے گئے‘ نادرا نے 1254ووٹوں کی تصدیق کر دی‘ 84 ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشانوں کی تصدیق نہ ہو سکی جبکہ 14 کاﺅنٹر فائلز پر انگوٹھوں کے نشان جعلی تھے لیکن کامیاب امیدوار خواجہ سعد رفیق اس دھاندلی کے ذمہ دار ہیں یہ ثابت نہیں ہوسکا‘ درخواست دہندہ خامد خان بھی دھاندلی کے ثبوت پیش نہیں کر سکے تاہم الیکشن عملے کی طرف سے سنجیدہ غلطیاں اور کوتاہیاں سامنے آئیں چنانچہ ٹریبونل نے تجویز دی ” این اے 125 میں دوبارہ الیکشن کرایا جائے“ خواجہ سعد رفیق نے ٹریبونل کے اس فیصلے کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ خواجہ صاحب عدالت میں یہ موقف اختیار کریں گے ”ووٹر لسٹوں کی غیر موجودگی یا کاﺅنٹر فائلز میں گڑ بڑ کے ذمہ دار ریٹرننگ آفیسر ہیں مگر سزا مجھے اور میرے حلقے کے ووٹروں کو مل رہی ہے‘ یہ زیادتی ہے‘ خواجہ صاحب کو شاید عدالت سے ریلیف بھی مل جائے کیونکہ چھ سات سنٹروں کے رزلٹ کی بنیاد پر 263 سنٹروں کے نتیجے کو کالعدم قرار دینا قرین انصاف نہیں ہو گا‘ خواجہ سعد رفیق ذاتی طور پر دوبارہ الیکشن کے قائل ہیں لیکن ان کی پارٹی اپیل کرنا چاہتی ہے‘ کیوں؟ کیونکہ پارٹی کو خدشہ ہے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے حلقے این اے 122 اور خواجہ آصف کے حلقے 110میں بھی یہ صورت حال ہو سکتی ہے چنانچہ اگر خواجہ سعد رفیق نے اپیل کی بجائے الیکشن لڑا تو ایاز صادق اور خواجہ آصف کو بھی الیکشن لڑنا پڑے گا اور شاید ایاز صادق وہ الیکشن نہ جیت سکیں اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کو خفت اٹھانا پڑے گی چنانچہ خواجہ سعد رفیق کو پارٹی نے فیصلے کے خلاف اپیل کا حکم دے دیا ‘ خواجہ سعد رفیق عدالت جا رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اگر ایاز صادق یا خواجہ آصف اس صورتحال کا نشانہ بنے تو یہ بھی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور عدالتیں جب تک کسی حتمی نتیجے پر پہنچیں گی حکومت اس وقت تک اپنی مدت پوری کر چکی ہو گی‘ ہم اب اخلاقی پہلو کی طرف آتے ہیں‘ یہ درست ہے خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کی نشاة ثانیہ کےلئے بے تہاشہ کام کیا‘ یہ ریلوے کو بڑی حد تک دوبارہ پٹڑی پر بھی لے آئے ‘ ریلوے خسارے سے بھی باہر آرہا ہے ‘ پاکستان مسلم لیگ ن کو دوبارہ خواجہ سعد رفیق جیسا ریلوے کا وزیربھی نہیں ملے گا لیکن اس کے باوجود خواجہ سعد رفیق کو ریلوے کی وزارت سے فوری طور پر مستعفی بھی ہونا چاہیے تھا اور پاکستان مسلم لیگ ن کو ٹریبونل کے کمزور فیصلے کے باوجود این اے 125 میں دوبارہ الیکشن کرانا چاہیے تھا اور اگر ایاز صادق اور خواجہ آصف کو بھی اس نوعیت کے فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے توحکومت کو ان حلقوں میں بھی ”ری الیکشن“ کرانا چاہیے‘ کیوں؟ کیونکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے سات برس سے اخلاقیات اور عدالتوں کے احترام کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے‘ ٹریبونل بھی عدالت ہوتے ہیں اور یہ عدالت حکومت کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے چنانچہ پاکستان مسلم لیگ ن کو یہ فیصلہ مان لینا چاہیے‘ اسے تاخیری حربوں کےلئے قانون کا سہارا نہیں لینا چاہیے‘ خواجہ سعد رفیق این اے 125 میں مضبوط ہیں‘ مجھے یقین ہے یہ دوبارہ جیت کر واپس آ جائیں گے‘ رہ گئے ایاز صادق تو یہ اگر ہار جاتے ہیں تو پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس سپیکرز کی کمی نہیں‘ یہ نیا سپیکر لے آئیں اور اپنی مدت پوری کریں‘ حکومت کو صرف ایاز صادق کےلئے خواجہ سعد رفیق جیسے سیاسی ورکر کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ”ریاست“ اب خواجہ آصف کی کارکردگی سے مطمئن ہے لہٰذایہ یقینا ایاز صادق جیسے مسائل کا شکار نہیں ہوں گے۔
ہم اگر چار مئی کے فیصلے کا تفصیلی جائزہ لیں تو خواجہ سعد رفیق کی معطلی ہمیں سمندر میں چھپے برفانی پہاڑ کی چھوٹی سی چوٹی