دیوار پر 9 تلواریں اور 7 زرہیں لٹک رہی ہوتی تھیں‘ جو اس قدر پریکٹیکل تھے کہ زندگی میں 27 غزوات میں خود شریک ہوئے‘ جو تاجر بھی تھے‘ معلم بھی تھے اور مبلغ بھی تھے‘ جنہوں نے زندگی میں ایک لمحہ ضائع نہیں کیا‘ جو گھوڑے سے اترتے تھے تو صفہ کے اصحاب کو پڑھانے لگتے تھے‘ وہاں سے فارغ ہوتے تھے تو بیماروں کی عیادت کرتے تھے‘ وہاں سے نکلتے تھے تو بازاروں میں تاجروں کے مسائل سنتے تھے‘ وہاں سے نکلتے تھے تو مسجد آ جاتے تھے‘جو رات کے وقت اہل خانہ کی تربیت فرماتے تھے اور اگر پھر بھی وقت بچ جاتا تو وہ اپنے جوتے گانٹھ لیتے تھے‘ اپنا بستر ٹھیک کر لیتے تھے‘ اپنے جانوروں کےلئے رسیاں بنا لیتے تھے‘ جو پہلے 313 کا لشکر بناتے تھے‘ لشکر کو بدر کے میدان میں لاتے تھے اور پھر اللہ سے نصرت کی دعا کرتے تھے‘ جنہوں نے پوری زندگی پہلے عمل کیا اور پھر اللہ سے دعا کی لیکن ہم علم اور عمل کے بغیر دعا کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ درست ہے شفاءکےلئے دعا چاہیے لیکن دوا بھی تو ضروری ہے‘ ہم نے دوا جیسی ضرورت تو ٹام‘ ڈک اور ہنری پر چھوڑ دی اور خود جائے نماز بچھا کر دعاﺅں میں مصروف ہیں‘ ہم حجاز مقدس کی حفاظت کےلئے جہاز‘ ٹینک‘ توپیں اور مواصلاتی نظام اللہ کے ان دشمنوں سے لے رہے ہیں جن کے خلاف اللہ نے اسلام اتارا تھا اور نصرت کی اپیل اللہ تعالیٰ سے کر رہے ہیں‘ ہم دنیا کو ہدایت کےلئے سعودی عرب بلاتے ہیں لیکن سعودی عرب اپنی حفاظت کےلئے امریکی‘ برطانوی‘ فرانسیسی اور جرمن اسلحہ خریدتا ہے اور پھر ترکی اور پاکستان سے فوج مانگتا ہے۔
خدا کےلئے جاگ جائیے‘ ہم نے ہزار سال غلامی میں گزار دیئے ہیں‘ ہم ہزار سال سے علم والوں‘ عمل والوں اور مضبوط دفاع والوں کی غلامی کر رہے ہیں‘ ہماری حالت یہ تھی پانچ سو گورے رائفلیں لے کر ہندوستان آئے اور پانچ سو رائفلوں کے ذریعے 25 کروڑ لوگوں کو غلام بنا لیا‘ چنگیز خان کے پاس دو دفاعی تکنیکس تھیں‘ تاتاری فوجی دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ سے تیر چلانے کا فن جانتے تھے‘ یہ مہینے کا سفر دس دن میں بھی طے کرلیتے تھے اور انہوں نے ان دو تکنیکس کے ذریعے پوری اسلامی دنیا کو کھوپڑیوں کا مینار بنا دیا‘ برطانیہ نے فرانس اور روس کو ساتھ ملایا اور 600 سال پرانی عثمانی خلافت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے‘ فرڈی نینڈ معیشت کو ہتھیار بناتا ہے اور ہمیں کان سے پکڑ کر سپین سے نکال دیتا ہے اور ہمارا بادشاہ مراکش میں بھیک مانگتا مانگتا مر جاتا ہے‘ ہم ہزار سال سے آکسفورڈ اور کیمبرج کی علمی غلامی بھی کر رہے ہیں‘ ہم دو سو سال سے ہارورڈ کے غلام بھی ہیں‘ ہم معیشت میں بھی عیسائی‘ یہودی اور چینی کمپنیوں کے غلام ہیں اور ہم امن‘ سکون اور انصاف کےلئے بھی یورپ کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور کبھی امریکا اور کینیڈا کی شہریت مانگتے ہیں‘ خدا کےلئے جاگ جائیے‘ اللہ کے نظام میں پہلے علم آتا ہے‘ پھر عمل کی باری آتی ہے اور پھر دعا کےلئے ہاتھ اٹھتے ہیں‘ دعا سے پہلے عمل کریں‘ علم حاصل کریں ورنہ ہمیں اسی طرح کعبہ کی حفاظت کےلئے مسٹر میک ڈونیل‘ مسٹر ڈگلس اور مسٹر ڈیوڈ کی منتیں کرنا پڑیں گی‘ ہم اسی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں گے اور دنیا ہمیں جوتے مارتی رہے گی۔
علم‘ عمل اور پھر دعا
30
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں