اتوار‬‮ ، 09 جون‬‮ 2024 

وہ کونسا منافق شخص تھا جس کی نماز جنازہ پڑھانے کو کوئی تیار نہ تھا تو رسول اللہ ﷺ نے خود اس کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی؟

datetime 15  ستمبر‬‮  2017

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ عمری نے کہا کہ مجھ سے نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی ( منافق ) کی موت ہوئی تو اس کا بیٹا ( عبداللہ صحابی ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! والد کے کفن کے لیے آپ اپنی قمیص عنایت فرمائیے اور ان پر نماز پڑھئے اور مغفرت کی دعا کیجئے ۔

چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص عنایت کی اور فرمایا کہ مجھے بتانا میں نماز جنازہ پڑھوں گا ۔ عبداللہ نے اطلاع بھجوائی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا نے کے لیے آگے بڑھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے پکڑ لیا اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے ” تو ان کے لیے استغفار کر یا نہ کر اور اگر تو ستر مرتبہ بھی استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا “ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ۔حوالہ: صحیح بخاری، کتاب الجنائز ، حدیث نمبر 1269۔اسی طرح اگر کبھی اس بات کی ضرورت ہوتی کہ غلطی پر فوراً براہ راست متنبہ کر دیا جائے تو انتہائی نرمی او رنہایت دل سوزی او رمحبت کے انداز میں سمجھاتے، تاکہ مخاطب حق بات قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے، چناں چہ ایک حدیث شریف میں آتا ہے: ایک دیہاتی مسجد نبوی کے ایک گوشے میں پیشاب کرنے لگا، مسجد میں موجود لوگوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور اس کو برا بھلا کہنے لگے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خاموش کیا، حتی کہ جب وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو پانی چھڑک کر صاف کرنے کا حکم دیا اور اس اعرابی کو بلا کر نہایت نرم لہجہ میں کہا: مسجد پیشاب کرنے کی جگہ نہیں ہے، مسجد میں الله کا ذکر کیا جاتاہے اور نماز ادا کی جاتی ہے،

اس اعرابی پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کا اتنا اثر ہوا کہ وہ کہتے ہیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا او رنہ ہی برا بھلا کہا ۔( سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر529) آپ صلی الله علیہ وسلم کا انداز لوگوں کے ساتھ کس قدر محبت آمیز اور مشفقانہ تھا، اس کا اندازہ حضرت انس کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے، وہ کہتے ہیں:” میں دس برس تک حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں رہا،

جو کام میں نے جس طرح بھی کر دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ”یہ کیوں کیا؟“ اگر کوئی کام نہ کر سکا تو یہ نہیں فرمایا: ”یہ کیوں نہیں کیا؟ “ آپ صلی الله علیہ وسلم کا باندیوں اور خادموں کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان میں سے کبھی کسی کو نہیں مارا۔ (مسلم، باب کان رسول الله صلیوزن)

موضوعات:



کالم



کھوپڑیوں کے مینار


1750ء تک فرانس میں صنعت کاروں‘ تاجروں اور بیوپاریوں…

سنگ دِل محبوب

بابر اعوان ملک کے نام ور وکیل‘ سیاست دان اور…

ہم بھی

پہلے دن بجلی بند ہو گئی‘ نیشنل گرڈ ٹرپ کر گیا…

صرف ایک زبان سے

میرے پاس چند دن قبل جرمنی سے ایک صاحب تشریف لائے‘…

آل مجاہد کالونی

یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے‘ میرے ایک دوست کسی…

ٹینگ ٹانگ

مجھے چند دن قبل کسی دوست نے لاہور کے ایک پاگل…

ایک نئی طرز کا فراڈ

عرفان صاحب میرے پرانے دوست ہیں‘ یہ کراچی میں…

فرح گوگی بھی لے لیں

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں‘ فرض کریں آپ ایک بڑے…

آئوٹ آف دی باکس

کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…