واشنگٹن (این این آئی )امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ کشمیر سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی پیشرفت پر گہری نظر ہے۔ امریکا کے بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ اہم تعلقات ہیں۔ کشمیر سمیت دیگر امور پر پاک بھارت براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں، مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے پاکستانی
حکام سے تعاون جاری رہے گا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکا کے بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ اہم تعلقات ہیں۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ کشمیر سمیت دیگر امور پر پاک بھارت براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں، مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے پاکستانی حکام سے تعاون جاری رہے گا۔امریکی حکام نے پاکستان اور بھارت سے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں سیاسی اور معاشی حالات کو بحال ہونا چاہیے۔دریں اثنا امریکی رپورٹ میں بھارت کے آزاد اقوام کی صفوں سے نکلنے پر افسوس کے اظہار کے بعد امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں آمریت پسندی اور قوم پرستی عروج پر ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی حکومت کے فنڈ سے چلنے والے تھنک ٹینک فریڈم ہائوس کی تیار کردہ ورلڈ 2021 رپورٹ میں کہا گیا کہ (وزیر اعظم نریندر مودی)کے تحت ایسا
لگتا ہے کہ بھارت نے عالمی جمہوری رہنما کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کی اپنی صلاحیت کو ترک کر دیا ہے جس میں ان کے بنیادی اقدار اور سب کے لیے مساوی حقوق کی قیمت پر تنگ نظر ہندو قوم پرست مفادات کو بلند کیا گیا ہے۔سیکریٹری ٹونی بلنکن نے اپنی پہلی بڑی
خارجہ پالیسی تقریر میں اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں آمریت اور قوم پرستی عروج پر ہے، حکومتیں کم شفاف ہوتی جارہی ہیں اور لوگوں کا اعتماد کھو چکی ہیں۔انہوں نے جنوری میں اپنے ملک میں انتخابات کے بعد ہونے والے تشدد کا بھی حوالہ دیا جب ایک
ہجوم نے انتخابی نتائج کو کالعدم بنانے کے لیے کانگریس پر حملہ کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں تشدد تیزی سے فلیش پوائنٹ بن رہے ہیں، کرپشن بڑھ رہی ہے اور وبائی امراض نے ان میں سے بہت سے رجحانات کو تیز کردیا ہے، جمہوریت کا خاتمہ نہ صرف دیگر مقامات پر
ہورہا ہے بلکہ یہ یہاں امریکا میں بھی ہو رہا ہے۔فریڈم ان ورلڈکے نام سے رپورٹ میں امریکی اسکور گزشتہ دہائی کے دوران 11 پوائنٹس کم اور صرف 2020 میں 3 پوائنٹس کم ہوا ہے۔2021 میں عالمی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں آزاد ممالک کے اعلی درجے سے
بھارت کے نکلنے پر افسوس کا اظہار کیا گیا جس کے حوالے سے خبردار کیا گیا کہ اس سے ‘عالمی جمہوری معیاروں پر خاص طور پر نقصان دہ اثر پڑ سکتا ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ2014میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ملک میں سیاسی حقوق اور شہری آزادی کی
صورتحال خراب ہونا شروع ہوگئی، انسانی حقوق کی تنظیموں پر دبا بڑھا، قابل لوگوں اور صحافیوں کو دھمکیوں میں اضافہ ہوا اور مسلمانوں کے قتل سمیت تعصب انگیز حملوں میں اضافہ ہوا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مودی کے 2019 میں دوبارہ انتخاب کے بعد ہی اس زوال میں تیزی
آئی اور گزشتہ سال بھارتی حکومت نے امتیازی شہریت قانون کے مخالف مظاہرین پر اپنا کریک ڈائون تیز کیا اور ایسے درجنوں صحافیوں کو گرفتار کیا جنہوں نے سرکاری وبائی ردعمل پر تنقید کی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ عدلیہ کی آزادی بھی دبا میں آگئی ہے، ایک معاملے میں
نئی دہلی میں فسادات کے دوران کوئی کارروائی نہ کرنے پر پولیس کی سرزنش کرنے والے جج کو فوری طور پر تبدیل کردیا گیا تھا جن فسادات میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دسمبر 2020 میں بھارت کی سب
سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش نے ایک ایسے قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت بین المذاہب شادی کے ذریعے جبری مذہبی تبدیلی پر پابندی عائد کی گئی ہے جس کے ناقدین کو خوف ہے کہ یہ بین المذاہب شادی کو موثر طور پر روکے گا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندو
خواتین کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے کے الزام میں بھارتی حکام متعدد مسلمان مردوں کو پہلے ہی گرفتار کر چکی ہے۔سیکریٹری ٹونی بلنکن نے کہا کہ سابق امریکی صدر کے برعکس جو بائیڈن انتظامیہ پوری دنیا میں جمہوریت کی حوصلہ افزائی کے لیے تیار ہے تاہم ایسا کرنے کے لیے
امریکا کی فوجی قوت کو استعمال نہیں کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم دوسروں کو اہم اصلاحات کرنے، خراب قوانین کو ختم کرنے، بدعنوانی کے خلاف جنگ اور ناجائز عمل کو روکنے کی ترغیب دیں گے، ہم جمہوری طرز عمل کو فروغ دیں گے۔انہوں نے کہا کہ لیکن ہم فوجی مداخلتوں کے
ذریعے یا طاقت کے ذریعہ آمرانہ حکومتوں کو ختم کرنے کی کوششوں کو فروغ نہیں دیں گے، ماضی میں ہم نے اچھی نیت سے یہ حربے آزمائے ہیں تاہم انہوں نے یہ کام نہیں کیے۔انہوں نے کہا کہ فوجی مداخلتوں نے جمہوریت کے فروغ کو ایک برا نام دیااور امریکی عوام کا اعتماد کھو گیا، ہم اب مختلف طریقے سے کام کریں گے۔