انقرہ(انٹرنیشنل ڈیسک) ترکی کی ایک مقامی عدالت نے زیرحراست امریکی پادری کو فیصلہ سنائے جانے تک جوڈیشل ریمانڈ کے تحت بدستور پابند سلاسل رکھنے کا حکم دیا ہے۔ زیر حراست امریکی پادری آنڈرو برانسن پر ترکی کی جاسوسی اور ملک میں ناکام فوجی بغاوت کے مبینہ منصوبہ ساز فتح اللہ گولن کی جماعت کی مدد کرنے جیسے الزامات عاید کیے گئے ہیں۔ برانسن کے ٹرائل کی وجہ سے ترکی
اور امریکا کے درمیان تناؤ بھی پایا جا رہا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق امریکی ریاست نارتھ کیرولینا کے رہائشی آنڈرو برانسن 20 سال سے ترکی میں مقیم ہیں۔ موجودہ حکومت نے ان پر 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت میں باغیوں کی مدد کرنے اور کالعدم کردستان ور کرز پارٹی کی مسلح امداد کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔برانسن کے ٹرائل کا آغاز رواں سال کے اوائل میں ہوا تھا۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں 35 سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب آنڈرو برانسن نے اپنے اوپر عاید الزامات کو بے بنیاد، من گھڑت، شرمناک اور پریشان کن قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ازمیر کی ایک صوبائی عدالت کی طرف سے پادری کو بدستور قید میں رکھنے کے فیصلے پر انقرہ میں متعین قائم مقام امریکی سفیر نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔واضح رہے کہ امریکی پادر قریبا دو سال سے ترکی میں قید ہے۔ حالیہ ایام میں ان کے بیانات کے حق میں گواہوں کے بیانات قلم بند کیے جانے پر رہائی کی امید کی جا رہی تھی مگر ترک استغاثہ نے ان کے خلاف مزید ثبوت پیش کرتے ہوئے اگلی سماعت تک پابند سلاسل رکھنے کی استدعا کی تھی۔ مقدمہ کی سماعت 12 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔