اشنگٹن (آئی این پی)امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ امریکی فوج شام میں موجود رہے گی تاکہ نہ صرف جہادیوں کے خلاف لڑائی میں شامل ہوں بلکہ شامی صدر بشار الاسد اور ان کے اتحادی ایران کی طاقت کی مزاحمت کر سکیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق شام میں سات سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے حوالے سے امریکی حکمت عملی پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے
کہا کہ امرکی فوج کا مشن خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والا شدت پسند تنظیم کا خاتمہ اور اس کی واپسی کو روکنا ہے۔تاہم انھوں نے اس کے ساتھ واضح کیا کہ غیر معینہ مدت کے لیے فوج کی تعیناتی کا مقصد شامی عوام کے لیے اس حد تک استحکام پیدا کرنا ہے تاکہ وہ بشار الاسد کو اقتدار سے الگ کر سکیں اور ایرانی اثر و رسوخ کو مسترد کر سکیں۔سٹینفرڈ یونیورسٹی میں بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس وقت امریکی فوج کے مکمل انخلا کی صورت میں بشار الاسد اس قابل ہو جائیں گے کہ وہ اپنی عوام کے خلاف ظالمانہ رویہ اختیار کیے رکھیں۔اپنے ہی لوگوں کا قاتل طویل المدت استحکام کے لیے درکار اعتماد حاصل نہیں کر سکتا۔خیال رہے کہ امریکہ کے شام میں دو ہزار کے قریب فوجی تعینات ہیں اور اس کے جنگی جہاز مشرقی شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ شام سے امریکہ کے نکلنے کی صورت میں ایران میں موقع ملے گا کہ وہ شام میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کر سکے۔جیسا کہ ایران کی پراکسی وارز اور عوامی بیانات کو دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں غلبہ چاہتا ہے اور ہمارے اتحادی اسرائیل کی تباہی چاہتا ہے۔امریکی وزیر خارجہ نے اس کے ساتھ واضح کیا کہ امریکہ عراق سے نکلنے کی غلطی دوبارہ نہیں دہرائے گا۔خیال رہے کہ امریکی فوجیوں کا عراق سے انخلا 2011 میں
مکمل ہوا تھا تاہم 2014 میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے اس دوبارہ محدود تعداد میں فوجی عراق بھیجنے پڑے۔انھوں نے کہا کہ امریکہ شام میں اپنے فوجی موجودگی کو برقرار رکھے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دولتِ اسلامیہ دوبارہ ابھر نہ سکے۔