کابل(آئی این پی)افغان طالبان نے شمالی صوبہ قندوز میں جھڑپوں کے دوران امریکی فوج کے جنرل سمیت 17 افغان اور امریکی فوجیوں کو ہلاک اور2ٹینکوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم نیٹو فورسز نے طالبان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کا جنرل سمیت 4امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ غلط ہے گزشتہ 24گھنٹوں میں کوئی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا،دوسری جانب سڑک کنارے نصب بم پھٹنے اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں 3شہری اور11طالبان جنگجو ہلاک ہوگئے ۔
منگل کو افغان خبررساں ادارے ’’خاما پریس ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ شمالی صوبہ قندوز میں جھڑپوں کے دوران 17افغان اور غیر ملکی فوجی مارے گئے جن میں ایک امریکی جنرل سمیت 4فوجی بھی شامل ہیں۔جبکہ 2ٹینکوں کو بھی تباہ کردیا گیا۔دوسری طرف افغان میں نیٹو مشن نے طالبان کے دعوے کو مسترد کردیا۔نیٹو کے ایک ترجمان کیپٹن ولیم کے سیلون نے اپنے بیان میں کہا کہ طالبان کا جنرل سمیت 4امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ غلط ہے گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران کوئی بھی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا ہے ۔دوسری جانب مغربی صوبہ ہرات میں سڑک کنارے نصب بم پھٹنے اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں 3شہری اور11طالبان جنگجو ہلاک ہوگئے ۔،صوبائی گورنر کے ترجمان جیلانی فرہاد نے بتایا ہے کہ بچوں سمیت 3شہری ضلع شنددند میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک ہوئے ۔فرہاد نے دعویٰ کیاکہ بارودی سرنگ طالبان نے بچھائی تھی ۔دریں اثناء ضلع شنددند میں ہی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں 11طالبان ہلاک اور13دیگر زخمی ہوگئے ۔جھڑپ کے دوران 4سیکورٹی اہلکار بھی زخمی ہوگئے ۔طالبان ترجمان قاری یوسف احمدی نے جھڑپ کی تصدیق کرتے ہوئے 4افغان فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے ۔
دریں اثناافغان طالبان نے شہریوں کی ہلاکتوں سے متعلق اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس میں سیاسی نقطہ نظر اپنانے کاالزام عائد کیا ہے ۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ گروپ شہری ہلاکتوں کو روکنے پر زیادہ توجہ دے رہا ہے ،ترجمان نے افغان اور امریکی فورسز پر سب سے زیادہ شہری ہلاکتوں کے ذمہ دار ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ افغان اور غیر ملکی فورسز شہریوں کی زندگیوں کے حوالے سے لاپروائی برت رہی ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے شہری ہلاکتوں کے حوالے سے نئی رپورٹ تیار کرتے وقت سیاسی نقطہ نظر اپنایا ہے ۔ اس سے قبل افغانستان کیلئے اقوامِ متحدہ کے معاون مشن (یو این اے ایم اے) نے گزشتہ روز شہری ہلاکتو ں سے متعلق اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی تھی جس میں اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان کے لوگ بدستور مہلک تنازع سے متاثر ہو رہے ہیں اور یہ سال بھی ان کے لیے بدترین شہری ہلاکتوں کا سال ثابت ہوا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1662 شہری ہلاک اور 3500 سے زائد زخمی ہوئے۔ان میں دارالحکومت کابل میں پیش آنے والے مہلک واقعات میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کا حصہ 20 فیصد ہے۔رپورٹ کے مطابق زیادہ تر شہری حکومت مخالف گروپوں بشمول طالبان عسکریت پسندوں اور شدت پسند تنظیم داعش کی طرف سے کیے گئے حملوں سے متاثر ہوئے۔
اقوام متحدہ نے 2009 سے افغانستان میں شہری ہلاکتوں کے اعدادوشمار جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔پہلی ششماہی میں ہونے والی ہلاکتوں میں اضافہ بہت منظم اور مربوط انداز میں کیے جانے والے حملوں کا نتیجہ ہے اور ایسے واقعات میں 259 افراد ہلاک اور 892 زخمی ہوئے جو گزشتہ سال کی نسبت اسی عرصے کے دوران ہونے والے شہری جانی نقصان سے 15 فیصد زیادہ ہیں۔ان میں زیادہ تر ہلاکتیں مئی کے اواخر میں کابل میں ہونے والے ایک ہی دہشت گرد حملے میں ہوئیں جو کہ ایک ٹرک بم دھماکے کا نتیجہ تھیں۔
اقوامِ متحدہ نے اس واقعے میں ہلاکتوں کی تعداد 92 بتائی تھی جب کہ افغان حکومت کے بقول اس میں 150 سے زائد لوگ مارے گئے۔یو این اے ایم اے اس واقعے کو 2001 کے بعد کسی ایک ہی دن افغانستان میں ہونے والا سب سے مہلک حملہ قرار دیتا ہے ۔افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی تادامیچی یاماموتو کہتے ہیں کہ تنازع کے باعث انسانی جانی نقصان کہیں زیادہ ہو رہا ہے اور ان کے بقول خاص طور پر دیسی ساختہ بموں کا غیر قانونی، بلا امتیاز اور نامناسب استعمال بند ہونا چاہیے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مہلک واقعات میں خواتین اور بچوں کے مرنے اور زخمی ہونے کی تعداد بھی خاصی زیادہ رہی ہے جس کی وجہ مشن کے بقول دیسی ساختہ بموں کا استعمال اور گنجان آباد علاقوں میں کی جانے والی فضائی کارروائیاں ہیں۔افغانستان میں رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 174 خواتین ہلاک اور 462 زخمی ہوئیں جب کہ اس عرصے کے دوران 436 بچے ہلاک ہوئے۔رپورٹ میں افغان سرکاری فورسز کو ان شہری ہلاکتوں کی دوسری بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ تاہم مشن کا کہنا تھا کہ ایسی کارروائیوں میں شہری جانی نقصان میں گزشتہ سال کی نسبت 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔