واشنگٹن( آن لائن ) امریکا نے افغانستان کے پڑوسی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کو واضح پیغام دیں کہ افغان تنازع کا مذاکرات کے علاوہ اور کوئی متبادل حل نہیں۔بھارتی شہر امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیاء4 کانفرنس کے اختتام کے بعد جاری کیے گئے بیان میں اگرچہ امریکا نے کسی بھی ملک کا نام نہیں لیا، تاہم اس سے پہلے امریکی عہدیداروں نے براہ راست پاکستان کو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کا کہا تھا۔پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے لورل ملر کا کہنا تھا کہ ‘مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں اور طالبان پر مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جانا چاہیے’۔
لورل ملر کا کہنا تھا کہ امریکا افغانستان کے ان تمام پڑوسی ممالک کی حوصلہ افزائی کرے گا جو افغانستان میں وسیع تر امن بحال کرنے اور طالبان کو مذاکرات کے دھارے میں لانے کے لیے کوششیں کریں گے، طالبان کے لیے بھی امن بحال کرنے کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے۔دوسری جانب افغانستان میں نیٹو اورامریکی فوج کے کمانڈر جنرل جون نکولسن نے نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ پاکستان، ایران اور روس کا طالبان پر اثر ہے اور یہ ممالک افغانستان میں سیاسی استحکام لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
جنرل نکولسن کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک طالبان کے شانہ بشانہ لڑ رہا ہے اور اس کی پاکستان میں موجود مبینہ محفوظ پناہ گاہیں اب بھی امریکا کے اتحادیوں اور افغانستان کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔دوسری جانب لورل ملر کے مطابق عالمی برادری افغان حکومت کی حمایت جاری رکھنا چاہتی ہے، لیکن اس سے زیادہ اہم افغانستان کے پڑوسیوں کی جانب سے افغان حکومت کی طویل المدتی مدد اور حمایت ہے۔امریکی عہدیداروں نے افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خطرات حقیقی ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک کو متحد ہوکرکام کرنے کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں افغان سیکیورٹی فورسز کو ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے دوسرا سال ہے، امریکی انتظامیہ نے افغان فورسز کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تعریف بھی کی ہے، مگر ساتھ ہی خبردار بھی کیا ہے کہ آنے والے سالوں میں حالات مزید کشیدہ ہوں گے۔واشنگٹن چاہتا ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک خاص طور پر پاکستان پائیدار امن قائم کرنے کے لیے افغان حکومت کی حمایت اور مدد کرے۔۔
افغان تنازع کا مذاکرات کے علاوہ کوئی متبادل نہیں حل،امریکہ
6
دسمبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں