انقرہ(مانیٹرنگ ڈیسک)ترکی کی تاریخ جمہوریت پر شب خون مارنے کے کئی واقعات کی گواہ ہے، وہاں کئی بار فوجی گروپوں نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے منتخب حکومت کو معزول کرنے کی کوشش کی۔میڈیارپورٹس کے مطابق ترکی میں فوجی بغاوتوں کی تاریخ رہی ہے اور اس کا سیاسی اور جمہوری سفر بہت سی مشکلات کا شکار رہ چکا ہے۔ جدید ترکی میں پہلی فوجی بغاوت تو مصطفیٰ کمال اتاترک نے ہی کی تھی جس نے 1920 میں خلافت عثمانیہ کے آخری تاجدار خلیفہ وحید الدین سریر آرائے کو ہٹا کر خود اقتدار سنبھالا تھا۔1960 میں ایک خونی فوجی بغاوت کے ذریعے وزیر اعظم عدنان مینڈیرس کو معزول کردیا گیا تھا، اس بغاوت کے بعد جنرل جمال گورسل ترکی کے صدر نامزد ہوئے اور عدنان مینڈیرس کو پھانسی دے دی گئی تھی۔
1971اور 1980 میں بھی اقتدار پر جابرانہ قبضے کی کوششیں کی گئیں اور جرنیلوں نے ایک بار پھر ملک کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ 1998 میں وزیر اعظم نجم الدین اربکان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، اس وقت طیب اردوان کو استنبول کے میئر کی حیثیت سے ہٹادیا گیا تھا۔16 جولائی 2016 کو ایک مرتبہ پھر فوجیوں کے ایک گروپ نے ترکی کی منتخب جمہوری حکومت کو ہٹاکر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی جسے ترک عوام، حکومت اور ترک فوج نے ناکام بنا دیا۔ اس سے قبل بھی اردوان حکومت کو ہٹانے کے لیے چار سے پانچ بار کوششیں کی گئیں مگر انہیں ابتدا ہی میں ناکام بنا دیا گیا۔واضح رہے کہ ترک آئین میں فوج کو شب خون مارنے کی اجازت ہے تاہم وہ حالات دیکھ کر اقتدارمیں آنے کی کوشش کرسکتی ہے۔
ترکی میں فوجی بغاوتوں کی تاریخ ، کتنی بار شب خون مارا گیا ؟ تہلکہ خیز رپورٹ
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں