اسلام آباد(خصوصی رپورٹ) جنوبی بحیر چین کے تنازعے پر چین کی حمایت میں مسلسل ہورہا ہے ، ثالثی ٹربیونل نے جس طرح یکطرفہ طورپر دائر کئے گئے اس مقدمے کی سماعت کی اور اس کا فیصلہ سنایا ا س پر بیشتر ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔دنیا بھر کے غیر جانبدار مبصرین بین الاقوامی قانون کے ماہر ین اور عالمی امور کے تجزیہ نگاروں نے اس مسئلے پر چینی موقف کی حمایت کی ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ چین ثالثی ٹربیونل کے یکطرفہ فیصلے کو کبھی قبول نہیں کرے گا ، اس فیصلے سے ہمارے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے یولان باتر میں یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ یورپی ممالک کے استحکام اور اس کے اتحاد کی حمایت کرتا ہے۔تھائی لینڈ کے فارن افیئرز فاؤنڈیشن کے چیئرمین سورا کیارٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ثالثی ٹربیونل کا فیصلہ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے جبکہ چین اور فلپائن کے درمیان براہ راست مذاکرات اس کا واحد حل ہیں ، اسی لئے چین نے اس فیصلے کو فضول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس پر عمل کرنے کے قطعاً پابند نہیں ہیں ،چین کے ذرائع ابلاغ جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے پر ثالثی ٹربیونل کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹر یبونل نے یہ فیصلہ دے کر مسئلے کو حل نہیں کیا بلکہ اسے مزید متنازعہ بنا دیا ہے ، اس سے علاقے میں کشیدگی میں اضافہ ہو جائے گا اور علاقے کی امن و سلامتی کو خدشات لاحق ہوجائیں گے۔کمبوڈیا کے وزیر اعظم سمدیچ ٹیکو ہن سین نے کہا ہے کہ جنوبی بحیرہ چین کا مسئلہ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔ یولان باتر میں انہوں نے چینی وزیراعظم لی کی کیانگ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کمبوڈیا اس مسئلے پر مثبت طرز عمل اختیار کرے گا اوروہ چاہتا ہے کہ وہ آسیان ممالک اور چین کے ساتھ دوستانہ اور پرامن ماحول میں رہ کر کام کرے۔ چینی وزیر اعظم نے جنوبی بحیرہ چین کے بارے میں کمبوڈیا کے موقف کی تعریف کی۔ہیل سنکی کے ممتاز دانشور قمر الحسین جو یونیورسٹی آف لیپ لینڈ میں قا نو ن کے پروفیسر ہیں نے شنہوا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ثالثی ٹریبونل کا فیصلہ ناقابل فہم ہے کیونکہ کوئی بھی ثالثی عدالت اس وقت تک سماعت نہیں کر سکتی جب تک فریقین اتفاق رائے سے اسے اس کا اختیار نہ دیں کیونکہ یہ فیصلہ یکطرفہ سماعت کے بعد دیا گیا ہے ،اس لئے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔دریں اثناء یونیورسٹی آف ہوسٹن کے سیاسیات کے امریکی پروفیسر پیٹرلی نے کہا ہے کہ یہ غیر قانونی ٹربیونل کا فیصلہ ہے جس نے ایک بری روایت قائم کی ہے جس پر کئی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔پراگ میں جمہوریہ چیک پارلیمنٹ کے چیمبرز آف ڈپٹیز کے چیئرمین جان ہمیسک نے کہا ہے کہ جنوبی بحیرہ چین کا تنازعہ پر امن مذاکرات کے ذریعے طے کیا جانا چاہئے۔
ثالثی فیصلہ اسی وقت قابل قبول ہوتا ہے جب فریقین سماعت پر متفق ہوں ، اس مسئلے پر چین کا موقف بالکل درست ہے کہ یہ مسئلہ باہمی بات چیت کے ذریعے طے کیا جانا چاہئے۔ یولان باتر نے کانفرنس کے موقع پر چینی وزیر اعظم لی کی کیانگ سے بات چیت کرتے ہوئے لاؤ وزیراعظم تھانگ لون سیسولتھ نے کہا ہے کہ لاؤس جنوبی بحیرہ چین کے تنازعے پر چین کے موقف کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور وہ چین کے ساتھ مل کر علاقے میں امن و استحکام کے لئے کام کرنے کو تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ یکطرفہ طورپر کئے گئے ثالثی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں۔دریں اثنا ء جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے پر ایک خصوصی انٹرویو میں چین کے سٹیٹ کونسلر یانگ جی چی نے اس تنازعے پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ چین اور فلپائن اچھے ہمسائے ہیں ، ہمارے دوستانہ تعلقات کی تاریخ ایک ہزار سال پر محیط ہے ، لیکن فلپائن نے اپنے کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ معاملہ ثالثی ٹربیونل میں پیش کردیا جس نے امریکہ کی پشت پناہی پر ایک غلط فیصلہ دیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ، چین اب بھی ماضی میں آسیان ممالک اور چین اور فلپائن کے درمیان جاری کئے گئے اعلامیے کی روشنی میں دوطرفہ بات چیت کے ذریعے اس تنازعے کو تاریخی حقائق اور عالمی قوانین کے تحت حل کرنے کے لئے تیار ہے۔واضح رہے کہ پاکستان نے اس مسئلے پر چین کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا تھا جس کے بعد کئی اہم ممالک چین کی حمایت میں میدان میں آ گئے ہیں۔
چین عالمی عدالت کیخلاف ڈٹ گیا, پاکستان کی بھرپور حمایت۔۔۔ اہم ممالک میدان میں آ گئے
15
جولائی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں