واشنگٹن(نیوز ڈیسک)
ایران کے اپنے نیوکلیئر پروگرام سے دست بردار ہونے کے پس منظر میں تہران اور بڑی طاقتوں کے درمیان تاریخی قرار دیے جانے والے معاہدے کے باوجود ایرانی تیل کے بحری جہازوں کی قسمت نہیں جاگی۔معاہدے کے تحت تہران پر سے پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد، امریکی رکاوٹوں کی دیوار نے تیل کی آمدنی میں اضافے اور معیشت کے پروان چڑھنے کے حوالے سے ایران کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پانچ جمع ایک گروپ کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں ان پرانی پابندیوں کو شامل نہیں کیا گیا جو واشنگٹن نے 1990 سے تہران پر عائد کی تھیں۔ ان کے تحت دہشت گردی کی سرپرست ریاست شمار کیے جانے کی وجہ سے بینکوں کے ساتھ اس کے لین دین کی کڑی نگرانی کی گئی۔ اس کے نتیجے میں پابندیوں کے اٹھائے جانے کے بعد منڈی میں ایرانی تیل کی واپسی پر چند گنی چنی کمپنیوں نے تہران کے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے چھوٹے بینکوں کا سہارا لیا۔پابندیوں کے بعد پہلی ڈیل کے واسطے فرانسیسی کمپنی ٹوٹل نے ادائیگی کے لیے یورپ کی تین انتہائی چھوٹے بینکوں پر انحصار کیا۔ ان بینکوں کی امتیازی حیثیت امریکا کے ساتھ ان کا کمزور لین دین ہے۔امریکی پابندیوں کے تحت امریکی مالیاتی نظام کے ذریعے ڈالر کرنسی میں بینک ٹرانسفر اور کسی بھی ایسے فریق کے ساتھ معاہدہ کرنا ممنوع ہے جس پر واشنگٹن دہشت گردی کی سپورٹ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور طویل مار کے میزائل پروگرام رکھنے کا الزام عائد کرتا ہے۔اگرچہ نیوکلییئر معاہدے نے توانائی کی عالمی کمپنیوں کو ایران کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے تاہم تہران کے امریکی ڈالر میں لین دین پر پابندی کی وجہ سے اس کی کشادگی محدود ہی رہی ہے۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکا غیرملکی بینکوں کے ایران کے ساتھ اس لین دین کی مخالفت نہیں کرتا جو ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان طے پائے گئے معاہدے کے نکات کے مطابق ہو۔
ایرانی تیل نہ بکنے والا سودا ۔۔۔۔،امریکی اخباروال سٹریٹ جرنل کے حیرت انگیز انکشافات
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں