نیویارک(نیوزڈیسک)اقوام متحدہ میں متعیّن امریکی سفیر سمنتھا پاور نے کہا ہے کہ اگر عراق کا موصل ڈیم منہدم ہوتا ہے تو یہ خوف ناک تباہی لائے گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق انھوں نے یہ بات اقوام متحدہ میں امریکا اور عراق کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔اس اجلاس میں سینیر سفارت کاروں اور اقوام متحدہ کے حکام نے پن بجلی پیدا کرنے والے موصل ڈیم کی ممکنہ تباہی اور اس کے اثرات کے حوالے سے غور کیا ہے۔موصل ڈیم کے ڈھانچے میں 1980ءکی دہائی میں اس کی تعمیر کے وقت سے ہی سقم پائے جاتے ہیں۔اگر یہ ٹوٹ جاتا ہے کہ تو وادیِ دجلہ کی گنجان آبادی زیر آب آجائے گی۔اقوام متحدہ میں منعقدہ اجلاس میں سمنتھا پاور کے علاوہ عراقی سفیر محمد علی الحکیم ،امریکا کی آرمی انجنیئرز کور کے ماہرین ،اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ماہرین ،اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور کے عہدے دار اور دوسرے سینیر سفارت کار شریک ہوئے ہیں۔سمنتھا پاور نے کہا کہ ”ڈیم میں ممکنہ دراڑ آنے پر صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں لیکن ڈیم اس کے باوجود ناکامی سے دوچار ہوسکتا ہے اور اگر یہ ٹوٹتا ہے تو بعض جگہوں پر پانی چودہ میٹر تک بلند ہوسکتا ہے۔اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے راستے میں آنے والی ہر چیز تباہی سے دوچار ہوجائے گی۔لوگ ،کاریں ،اسلحہ وگولہ بارود ،فضلہ اور خطرناک مواد سب ڈوب جائے گا اور اس سے آبادی کے لیے خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔انھوں نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زوردیا ہے کہ وہ ڈیم کی تباہی کی صورت میں انسانی المیے سے بچنے کے لیے تیار رہیں۔امریکی مشن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ڈیم ٹوٹنے سے آنے والے سیلاب کے راستے میں قریباً پانچ لاکھ سے چودہ لاکھ ستر ہزار تک افراد رہ رہے ہیں۔عراق نے اٹلی کے ٹریوی گروپ کے ساتھ 27 کروڑ 30 لاکھ یورو کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں۔اس کے تحت موصل ڈیم کی اٹھارہ ماہ تک مرمت کی جائے گی اور اس کو برقرار رکھا جائے گا۔اٹلی کا کہنا تھا کہ وہ ڈیم کے تحفظ کے لیے ساڑھے چار سو فوجی بھیج رہا ہے۔یہ ڈیم 3.6 کلومیٹر طویل ہے اور داعش کے زیر قبضہ علاقے کے نزدیک واقع ہے۔داعش نے اگست 2014ءمیں موصل ڈیم پر مختصر وقت کے لیے قبضہ کر لیا تھا لیکن دو ہفتے کے بعد عراقی سکیورٹی فورسز نے انھیں وہاں سے مار بھگایا تھا اور ڈیم کا قبضہ واپس لے لیا تھا۔عراقی حکومت کا کہناتھا کہ وہ ڈیم کو تباہی سے بچانے کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات کررہی ہے جبکہ وہ اس کی تباہی کے خطرے کو بھی کم سے کم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔