ہفتہ‬‮ ، 23 اگست‬‮ 2025 

لاعلاج مرض کا ‘علاج’ آخرکار ڈھونڈ لیا گیا

datetime 11  اپریل‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

امریکا (مانیٹرنگ ڈیسک) دماغ کو بری طرح متاثر کرنے والے مرض الزائمر کو لاعلاج سمجھا جاتا ہے تاہم اب سائنسدانوں نے اس پر قابو پانے کے حوالے سے بڑا دعویٰ اس وقت کیا جب انہوں نے پہلی مرتبہ اس بیماری کا باعث بننے والے اہم ترین جین کو بے اثر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔ گلیڈاسٹون انسٹیٹوٹ کی تحقیقی ٹیم نے اس پروٹین کو شناخت کرنے میں کامیابی حاصل کی جو apoE4 نامی جین سے جڑا ہوتا ہے جو الزائمر کا باعث بنتا ہے۔

سائنسدانوں نے اس کی تشخیص کے ساتھ ساتھ انسانی عصبی خلیات کو پہنچنے والے نقصان کی روک تھام میں کامیابی حاصل کی۔ تحقیقی ٹیم کے مطابق اس کامیابی سے ایسی موثر دوا تیار کرنے میں مدد ملے گی جو اس لاعلاج مرض کی روک تھام کرسکے گا۔ تاہم محققین کا کہنا تھا کہ فی الحال یہ کمپاﺅنڈ صرف لیبارٹری میں انسانی دماغی خلیات پر آزمایا گیا ہے اور اس کی عملی آزمائش نہیں ہوئی۔ apoE4 نامی جین الزائمر کا خطرہ دوگنا سے زیادہ بڑھا دیتا ہے جبکہ اس کی 2 کاپیاں یہ خطرہ 12 گنا بڑھا دیتی ہیں۔ ماضی میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ ہر 4 میں سے ایک شخص میں یہ جین موجود ہوتا ہے۔ انسانی نیورونز اس جین کی بدولت افعال معمول کے مطابق سرانجام نہیں دے پاتے اور الزائمر کا باعث بننے والے اجزا بننے لگتے ہیں۔ محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ یہ جین واقعی الزائمر کا باعث بنتا ہے یا نہیں۔ اسٹیم سیل ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے الزائمر کے شکار افراد کے جلدی خلیات سے نیورونز بنائے گئے، پھر ان کا موازنہ ایسے خلیات سے کیا گیا جو apoE4 نہیں بنارہے تھے، اور معلوم ہوا کہ اس کی نہ ہونے کے برابر موجودگی بھی دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ اس کے بعد محققین نے جینیاتی اسٹرکچر ٹھیک کرنے والے ٹول کا استعمال کرکے الزائمر کی علامات کو ختم کردیا۔ اب یہ سائنسدان ادویات ساز کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں تاکہ اس کمپاﺅنڈ کو بہتر بناکر مریضوں پر اس کی آزمائش کی جائے۔

یہ تجربہ بہت زیادہ اہم اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ انسانی خلیات پر کیا جارہا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ الزائمر امراض کے حوالے سے دوا کی تیاری میں گزشتہ 10 برسوں میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، کچھ ادویات جانوروں پر تجربات کے دوران تو کام کرتی ہیں مگر انسانی آزمائشوں میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے چوہوں پر تجربات کی بجائے براہ راست انسانی دماغی خلیات پر کام کیا اور اس لاعلاج بیماری کا موثر توڑ ڈھونڈ نکالا، تاہم حتمی فیصلہ مریضوں پر اس کی آزمائش کے بعد ہوگا۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر میڈیسین میں شائع ہوئے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



خوشی کا پہلا میوزیم


ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…