منگل‬‮ ، 04 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

اٹھارویں ترمیم کے بعد غیر مسلموں کو شادی اور علیحدگی میں مسائل کا سامنا

datetime 8  دسمبر‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام ا باد۔۔۔۔۔18ویں ترمیم کے بعد غیر مسلموں کو شادی اور علیحدگی دونوں صورتوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس کے تحت مذہبی اور شادیوں کے معاملات صوبوں کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ابھی تک کسی بھی صوبے نے اس حوالے سے قانون سازی نہیں کی اور اقلیتی برادری کو خدشہ ہے کہ کسی بھی قسم کی قانون سازی کی صورت میں ان کے صورتحال مزید بدتر ہو جائے گی۔حکمران ماعت مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر لعل کمار نے کہا کہ اصل تحفظات یہ ہیں کہ اگر چاروں صوبے الگ الگ قانون بناتے ہیں، تو ہماری برادری بری طرح متاثر ہو گی۔اس وقت اقلیتوں کو اپنی شادی کا ثبوت دینے کے لیے قانونی دستاویز نہیں، شادیوں کو قانوناً تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے ہندو برادری کی خواتین کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں نام کی تبدیلی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ’مذہبی اقلیتیں اور پاکستان میں شادی کے قوانین‘ کے نام سے ایک رپورٹ بھی تیار کی گئی جس میں ان مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔اس رپورٹ کو طاہر مہدی نے تیار کیا ہے جسے کمیونٹی ورلڈ سروسز نے شائع کیا ہے۔ اس میں شادی اور طلاق کے حوالے سے ہندو، عیسائی، سکھ، احمدی، بہائی، پارسی برادری کو شادی اور طلاق میں درپیش مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کی ا پس میں شادیوں اور مذہب کی تبدیلی کے نتیجے میں سامنے ا نے والے مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔طاہر مہدی نے بتایا کہ اقلیتی برادری کے لیے قانون سازی میں سب سے بڑی رکاوٹ برادری کے اراکین اور اس کے مذہبی رہنماؤں کے نظریات کا فرق کا ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ اس موقع پر ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اگر دو افراد ایک ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو پھر اس کے لیے کوئی قانونی راستہ ہونا چاہیے۔اس موقع پر انہوں نے ہندو اور عیسائی عقائد میں طلاق کے حوالے سے کسی قسم کے ضوابط نہ ہونے کی نشاندہی کی اور یہی وجہ ہے کہ ان برادریوں کے مذہبی حلقے طلاق کو قانونی قرار دینے کے حوالے سے کسی قانون سازی کے حق میں نہیں۔

لیکن ڈاکتر لعل کمار کے مطابق انہوں نے ہندوؤں میں شادی اور طلاق کے حوالے سے قانون کا ڈرافٹ بل وفاقی کابینہ میں جمع کرادیا ہے۔لعل کمار نے ڈان کو بتایا کہ ہمارے یہاں طلاق کا تصور نہیں لیکن قانون میں علیحدگی کی اصطلاح موجود ہے۔دوسری جانب رپورٹ میں ملک میں کسی مرکزی قانونی ڈھانچے کی عدم جوودگی کے باعث مختلف برادریوں کو درپیش مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔اس وقت شادی کے ثبوت کے طور پر مخصوص تنظیموں، گرجا گھروں اور لائسنس یافتہ افراد عدالت یا یا نادرا میں شناختی کارڈ کے حصول کے لیے پیش ہوتے ہیں۔رپورٹ میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 میں موجود خامیوں کا بھی احاطہ کیا گیا جس کے تحت کمسنی میں شادی جرم ہے لیکن اس شادی کو ختم تصور نہیں کیا جاتا۔رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی کہ مسلمانوں کی طرح غیرمسلموں کے لیے مقامی سطھ پر شادی کی جرسٹریشن کا نظام متعارف کرانا چاہیے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



دنیا کا انوکھا علاج


نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…

دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ

میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا…