سلام آباد (مانیـٹرنگ ڈیسک)پاکستان میں گاڑیوں کی بلیک مارکیٹنگ بھی عروج پر پہنچ گئی ہے۔مقبول ماڈلز پر اوسطاً ڈیڑھ لاکھ سے2 لاکھ روپے بلیک منی وصول جبکہ نئے متعارف کرائے گئے ماڈلز پر تین لاکھ روپے تک کی بلیک منی وصول کی جانے لگی۔ ایچ ایم شہزاد کا انکشاف۔تفصیلات کے مطابق آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے انکشاف کرتے
ہوئے بتایا ہے کہ نئی گاڑیوں کی مارکیٹ میں قوانین کی کھلم کھلا دھجیاں بکھیری جارہی ہیں اور وفاقی وزارت صنعت و پیداوار اور مسابقتی کمیشن آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں۔ دوسری جانب قومی آٹو پالیسی کے ذریعے صارفین کو گاڑیوں کی بروقت فراہمی اور بلیک مارکیٹنگ کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے آٹو پالیسی بھی غیرموثر ہوکر رہ گئی ہے۔ایچ ایم شہزاد نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 70فیصد نئی گاڑیاں بلیک مارکیٹنگ مافیا کے ذریعے فروخت کی جارہی ہیں۔ گاڑیوں کے مقبول ماڈلز پر اوسطاً ڈیڑھ لاکھ سے2 لاکھ روپے بلیک منی وصول کی جارہی حال ہی میں متعارف کرائے گئے ماڈلز پر تین لاکھ روپے تک کی بلیک منی وصول کی جارہی ہے۔ بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے نئی گاڑیاں عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ ملک میں نئی گاڑیوں کی بلیک مارکیٹنگ متوازی ڈیلر شپ کے زریعے کی جارہی ہے جو فرضی ناموںاور کوائف کے ذریعے سرمایہ کاروں کا پیسہ نئی گاڑیوں میں انویسٹ کرواتے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے بعد نئی گاڑیوں کی خریداری میں انویسٹمنٹ سب سے پرکشش اور منافع بخش ذریعہ بن چکا ہے اور بہتری گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے صارفین کا استحصال کرنے والے ڈیلرز بھی کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ایچ ایم شہزاد نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے
کہ گاڑیوں کی بلیک مارکیٹنگ کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جائے اور گاڑیوں کی بلیک مارکیٹنگ کے اس مذموم دھندے میں ملوث افراد ے خلاف تحقیقات کی جائیں۔انہوں نے کہا کہ نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایڈیشنل ٹیکس کی تجویز بھی بلیک مارکیٹنگ کو قانونی حیثیت دلوانے کی ایک مذموم کوشش ہے۔چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ حکومت کی جانب سے نئے انویسٹرز کو راغب کرنے کے لیے پالیسی میں دی جانے والی مراعات کی وجہ سے بہت سے نئے سرمایہ کار مارکیٹ میں آرہے ہیں لیکن بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے نئے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔