نیو یارک۔۔۔۔اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپوں نے ان امریکی حکام پر مقدمہ چلانے کا کہا ہے جنھوں نے امریکی سینیٹ کی رپورٹ کے مطابق ’القاعدہ کے مشتبہ دہشتگردوں سے تفتیش کے دوران بربریت اور وحشیانہ سلوک کا مظاہرہ کیا۔‘اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے خصوصی نمائندے بن ایمرسن نے کہا کہ یہ ’اعلیٰ سطح پر تیا ر کردہ ایک واضح پالیسی تھی۔‘انھوں نے کہا کہ جرائم کی منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے والے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کے سینیئر حکام پر مقدمہ ضرور چلانا چاہیے جبکہ ان امریکی حکام اور سی آئی اے کے حکام پر بھی مقدمہ چلانا چاہیے جو واٹر بورڈنگ جیسی جسمانی اذیتیں دینے کے مرتکب ہیں۔امریکہ کی سینیٹ کی رپورٹ میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو مشتبہ دہشتگردوں سے تفتیش کے دوران بربریت اور وحشیانہ پن کا مظاہرہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا تاہم سی آئی اے کا موقف ہے کہ اس تفتیشی عمل سے زندگیاں بچانے میں مدد ملی تھی۔دباؤ کے ذریعے تفتیش کے دوران کسی بھی موقعے پر کسی متوقع حملے کے بارے میں کوئی خفیہ معلومات حاصل نہیں کی جا سکیں۔انسداد دہشتگردی میں ’کامیابی‘ کے جن 20 واقعات کا سی آئی اے نے ذکر کیا ہے ان میں کسی ایک میں بھی ایسی معلومات حاصل نہیں ہوئیں جن کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ یہ معلومات معمول کی تفتیش سے حاصل نہیں ہو سکتی تھیں۔غیر مروجہ تفتیش کے طریقے استعمال کرنے کے لیے سی آئی اے نے جب اجازت مانگی تو اس نے غلط معلومات دیں اور یوں سیاستدانوں اور عوام کو گمراہ کیا۔سی آئی اے کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ کسی بھی سینیٹر کو تفتیشی پروگرام پر اعتراض نہیں تھا۔تفتیشی پروگرام انتہائی ناقص تھا۔ اس سلسلے میں ’کوبالٹ‘ نامی قیدخانے کے قیام کی مثال دی جا سکتی ہے۔تفتیشی پروگرام کے دوران جن 119 افراد کو قید رکھا گیا ان میں سے کم از کم 26 ایسے تھے جنھیں قید میں رکھنا غلط تھا، اور کئی قیدیوں کو ضرورت سے زیادہ مہینوں قید میں رکھا گیا۔
سی آئی اے کے ان دعوؤں کے باوجود کہ تفتیش کے آغاز میں سخت طریقے استعمال نہیں کیے جائیں گے، مشتبہ افراد پر تفتیش کے آغاز سے ہی جارحانہ طریقے لاگو کیے گئے۔تفتیش کے جو طریقے اپنائے گئے ان میں 180 گھنٹے تک قیدیوں کو نیند سے محروم رکھنا شامل تھا، اور اس دوران انھیں عموماً کھڑے رکھا جاتا تھا یا تکلیف دہ حالت میں رکھا جاتا تھا۔واٹر بورڈنگ کا طریقہ قیدیوں کے لیے طبعی طور پر نقصان دہ تھا اور اس سے انھیں تشنّج اور قے ہوتی تھی۔سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کے رپورٹ چھ ہزار سے زیاد صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں بیشمار شواہد پیش کیے گئے ہیں تاہم فی الحال اس رپورٹ کا 480 صفحات پر مشتمل خلاصہ ہی منظر عام پر لایا جا رہا ہے۔اقوامِ متحدہ کے نمائندہ خصوصی بن ایمرسن نے جنیوا سے جاری بیان میں کہا کہ ’بین الاقوامی قانون کی وساطت سے امریکہ قانونی طور پابند ہے کہ وہ ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ امریکی اٹارنی جنرل کی قانونی ڈیوٹی ہے کہ وہ ذمہ دار افراد پر جرائم کے مرتکب ہونے کا مقدمہ کروائیں۔‘دریں اثنا صدر براک اوباما نے منگل کو امید ظاہر کی کہ سینیٹ کی رپورٹ شائع ہونے سے پرانے دلائل کی پر دوبارہ جنگ نہیں ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ اب آگے بڑھنے کا وقت ہے۔انھوں نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ یہ رپورٹ ہمیں اس میں مدد دے کہ ٹارچر کے طریقوں کو ماضی میں دفن کر دیں۔‘واضح رہے کہ جب سنہ 2009 میں براک اوباما نے عہدہصدارت سنبھالا تھا تو انھوں نے سی آئی اے کے تفتیشی پروگرام کو روک دیا تھا۔نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بش انتظامیہ کے اہلکاروں پر مقدمہ چلانے کے امکانات کم ہیں کیونکہ امریکی محکم? انصاف نے کہا ہے کہ اس نے سنہ 2000 سے گرفتار ہونے والے افراد کے ساتھ برا سلوک کرنے کے دو کیسز کی تحقیقات کیں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کیسز میں اتنے شواہد نہیں ملے جس کی مدد سے کسی پر جرم ثابت کیا جا سکے۔ادھر بااثر ریپبلکن سینیٹر جان میک کین نے موقف پیش کیا ہے کہ ٹارچر کے ذریعے ’مشکل ہی سے مصدقہ معلومات حاصل ہوتی ہیں، اور یہ کہ اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں بھی سب سے اہم معلومات تفتیش کے روایتی طریقوں سے حاصل ہوئیں۔‘جان میک کین نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ نہ صرف ہمارے دشمنوں کے لیے بلکہ امریکیوں کے لیے بھی حیران کن ہوگا کہ تفتیش کے ان طریقوں سے ہمیں 9/11 کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور آج اور کل دہشت گردوں کے حملے معلوم کرنے اور اسے روکنے میں کتنی کم مدد ملی۔‘امریکی ایوان بالا کی انٹیلیجنس سے متعلق کمیٹی کی رپورٹ کے خلاصے میں کہا گیا ہے کہ مشتبہ دہشتگردوں سے تفتیش کے عمل میں بدانتظامی برتی گئی اور ان تفتیشی طریقوں سے حاصل کی جانے والی معلومات قابل بھروسہ بھی نہیں تھیں اور سی آئی اے ان افراد سے کارآمد معلومات کے حصول میں ناکام رہی۔ایجنسی کے ڈائریکٹر جان برینن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’اس پروگرام سے حاصل ہونے والی معلومات القاعدہ کو سمجھنے کے لیے کلیدی تھیں اور آج بھی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں کام آ رہی ہیں۔‘ریپبلکن سینیٹر جان میک کین نے موقف پیش کیا ہے کہ ٹارچر کے ذریعے ’مشکل ہی سے مصدقہ معلومات حاصل ہوتی ہیں، اور یہ کہ اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں بھی سب سے اہم معلومات تفتیش کے روایتی طریقوں سے حاصل ہوئیں۔‘تاہم سی آئی اے نے تسلیم کیا ہے کہ اس پروگرام کے دوران خصوصاً ابتدائی عرصے میں غلطیاں ہوئیں جب وہ قیدیوں کو زیرِ حراست رکھنے اور ان سے تفتیش کے اتنے بڑے پیمانے کی کارروائی کے لیے تیار نہیں تھی۔امریکی صدر براک اوباما نے رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ سی آئی اے کے تفتیشی طریقے امریکی اقدار کے خلاف تھے۔ایک بیان میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’ان طریقوں نے دنیا میں امریکہ کے مقام کو خاصا نقصان پہنچایا اور امریکہ کے لیے اتحادی ممالک سے اپنے مفادات کے حصول کا عمل مشکل بنا دیا۔‘
نائن الیون حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد بھی ان افراد میں شامل ہیں جنھیں واٹر بورڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔خیال رہے کہ امریکہ کے ری پبلکن صدر جارج بش کے دورِ صدارت میں سی آئی اے کی القاعدہ کے خلاف کارروائی کے دوران 100 سے زیادہ مشتبہ دہشت گردوں کو امریکہ سے باہر ’بلیک سائٹس‘ یا خفیہ قیدخانوں میں رکھا گیا تھا۔ان افراد سے معلومات کے حصول کے لیے واٹر بورڈنگ، نیند سے محرومی، سخت موسم کا سامنا کروانے جیسے تشدد کے مختلف طریقے استعمال کیے گئے تھے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دورانِ تفتیش کچھ قیدیوں کو 180 گھنٹے یعنی تقریباً ساڑھے سات دن تک سونے نہیں دیا گیا جبکہ واٹر بورڈنگ کے دوران ابو زبیدہ سمیت کئی قیدی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔
امریکہ ’ تفتیش کے دوران بربریت کا مظاہرہ کرنے والے اہلکاروں کو سز ا دے،اقوامِ متحدہ
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں