اسلام آباد (آن لائن)سپریم کورٹ میں ایکٹ 2010 ء کے ذریعے بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کیخلاف دائر نظر ثانی درخواستوں پر مزید سماعت جمعرات کو ہو گی۔ بدھ کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ایکٹ 2010 ء کے ذریعے بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق
عدالتی فیصلے کیخلاف وفاقی حکومت اور دیگر کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او ) کے برطرفی ملازمین کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ عدالت قانون کالعدم قرار دیتے ہوئے بھی ملازمین کو تحفظ دے سکتی ہے،معلوم ہے عدالت مستقبل کیلئے کوئی غیرمناسب اصول وضع نہیں کرے گی،سپریم کورٹ نے برطرف ملازمین سے ریکوری کا حکم بھی دیا ہے ،ریکوری کے لئے ملازمین کی ریٹائرمنٹ مراعات روکی جا رہی ہیں۔ اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کرپشن پر نکالے گئے ملازمین کو پارلیمنٹ کیسے بحال کر سکتی ہے،بحالی کے قانون میں کرپشن پر نکالے گئے ملازمین کو تحفظ حاصل نہیں تھا،جمہوری نظام میں قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے ہوتی ہے،پارلیمنٹ سپریم ہے، آرڈیننس کا دائرہ محدود ہوتا ہے،انتہائی ضروری حالات میں فوری ضرورت کے تحت ہی آرڈیننس آ سکتا ہے، مارشل لاء دور کے علاوہ ہر آرڈیننس کے بعد ایکٹ آف پارلیمنٹ آتا ہے، آرڈیننس کے تحت بحال ملازمین کو ایکٹ میں تحفظ نہیں دیا گیا، آرڈیننس کے تحت 2009 میں بحال ہونے والے اب تک کیسے برقرار رہ سکتے۔جسٹس قاضی امین نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے کسی ملازم کو برطرف کرنے کا حکم نہیں دیا تھا،
عدالت نے ماضی کے اصولوں پر چلتے ہوئے قانون کالعدم قرار دیا تھا،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آرڈیننس کے ذریعے حکومت عارضی قانون سازی کر سکتی ہے،قانون سازی کرنا آئین کے تحت پارلیمنٹ کا ہی اختیار ہے،حکومتی اقدامات میں شفافیت ہونی چاہیے۔دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے وزیراعظم
عمران خان کی ہدایات سے متعلق عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم نے برطرف ملازمین سے متعلق تین ہدایات دی ہیں،وزیراعظم نے کہا ہے کہ گریڈ ایک سے 7 کے ملازمین کو بحال کیا جائے، گریڈ 8 سے17 گریڈ کے ملازمین کا ایف پی ایس سی ٹیسٹ لیا جائیگا،فیڈرل پبلک سروس کمیشن 3 ماہ میں ملازمین کے ٹیسٹ کا عمل
مکمل کرے گا،جو ملازمین ٹیسٹ پاس کریں گے انہیں مستقل کردیا جائے گا،ٹیسٹ کلیئر ہونے تک ملازمین ایڈہاک تصور ہوں گے،وزیراعظم نے تجویزدی ہے کہ نکالے گئے ملازمین متعلقہ عدالتوں سے رجوع کرسکتے ہیں،وزیراعظم نے گریڈ ایک سے 7 والے ملازمین کو فوری بحال کرنے کا کہا ہے ،جو ملازمین ٹیسٹ پاس کرنے
کے بعد مستقل ہوں گے ان کی پینشن کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا،جو ملازمین بحال ہوتے ہی پنشن لے رہے انہیں مزید پنشن نہیں ملے گی، ملازمین کو جو رقم دی جا چکی وہ ریکور نہیں کی جائے گی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا عدالت نے ایکٹ کالعدم قراردیا تھا جس کے متاثرہ ملازمین کی تعداد 5947 ہے،برطرف ہونے والے ملازمین کا تعلق 38 مختلف وفاقی اداروں سے ہے، برطرف ہونے والوں میں 3789 ملازمین سول سرونٹ نہیں کہلاتے۔اس
دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی تجاویز پر غور کرینگے،اس پہلو سے دیکھا جائے گا کہ تجاویز سے عدالتی فیصلہ متاثر تو نہیں ہوگا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ تجاویز پر غور کرکے اپنی رائے دینگے۔ اٹارنی جنرل نے اس دوران کہا کہ ملازمین پریشان ہیں گریڈ 1 سے 7 کے ملازمین کیلئے آج ہی حکم جاری کر دیں۔ جس پر جسٹس قای آمین نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب اتنی جلدی نہ کریں ہمیں غور کرنے دیں۔