اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت کا کس نشریاتی ادارے نے کیا پروگرام نشر کرنا ہے فیصلہ ادارے خود کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وفاقی وزیر نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ’’کس نشریاتی ادارے نے کیا پروگرام نشر کرنا ہے اوراس کی ٹیم کیا ہوگی یہ فیصلہ ادارے خود کرتے ہیں،
ہمارا اداروں کے اندرونی فیصلوں سے کوئ تعلق نہیں تمام ادارے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اپنی پالیسی بنانے کے خود ذمہ دار ہیں۔فواد چوہدری نے کہا ہے کہ میڈیا کے نئےقانون سےصرف فائدہ میڈیا ورکرز کو ہے جو تنخواہیں نہ ملنے پر اپنے اداروں کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکیں گے۔ وفاقی وزیر نے مزید کہان ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اس ترمیم کی پہلے بھی مخالفت کی اور اب بھی کریں گے کیونکہ ان کے مفادات ورکرز سے نہیں سیٹھ کے ساتھ ہیں۔ واضح رہے کہ جنگ ، جیو کے صحافی حامد میر نے اپنے اوپر لگنے والی پابندی سے متعلق ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مجھ پر پہلے بھی دو دفعہ پابندی لگ چکی ہے ،2دفعہ ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے ،اس وقت میں کسی بھی نتائج کے لئے تیار ہوں اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوں کیونکہ وہ میرے اہل خانہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دوسری جانب تفصیلات شیئر کرتے ہوئے صحافی وسیم عباسی نے کہا ہے کہ حامد میر صاحب جنگ گروپ کا حصہ ہیں۔ بس عارضی طور پر شو کی میزبانی محمد جنید یا کراچی سے کوئی اور اینکر کریں گے۔چند صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ حامد میر پر پابندی اداروں کے کہنے پر لگائی گئی ہے کیونکہ حامد میر نے کچھ روز قبل فوجی اداروں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی تھی۔دوسری جانب ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ حامد میر پر پابندی جیو کی انتظامیہ نے تنازعہ سے بچنے کیلئے خود لگائی ہے جس کا جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ حامد میر بدستور جنگ گروپ کا حصہ رہیں گے اور وہ معمول کے مطابق تنخواہ اور مراعات لیتے رہیں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جیو کی انتظامیہ کے مطابق حامد میر نے جو زبان استعمال کی ہے وہ جیو کی پالیسی نہیں ہے، ایسی زبان حامد میر نے ذاتی حیثیت میں استعمال کی ہے۔حامد میر کے مخالف بعض حلقوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حامد میر کو کچھ عرصہ پہلے ایک نوٹس کے ذریعے کیپیٹل ٹاک سے علیحدہ کیا جاچکا ہے جس کی وجہ حامد میر کے شو کی مسلسل ریٹنگ کا گرنا ہے۔