گوادر( آن لائن ) پیشکان سے تعلق رکھنے والے ایک مچھیرے نے جیوانی کے ساحل سے 48 کلو گرام وزنی مچھلی پکڑی جسے 72 لاکھ روپے کی خطیر رقم کے عوض فروخت کیا گیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ساجد حاجی ابا بکر کا کہنا تھا کہ قیمتی کروکر مچھلی پکڑنے کا سہرا کشتی کے مالک کے سر جاتا ہے، اس وقت کشتی پیشکان کے وحید بلوچ چلا رہے تھے۔گوادر میں فشریز کے
ڈپٹی ڈائریکٹر احمد ندیم نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے کبھی ایسی مچھلی نہیں دیکھی جس کی اتنی زیادہ قیمت ہو۔حاجی ابابکر کا کہنا تھا کہ نیلامی کے دوران ایک موقع پر مچھلی کی قیمت 86 لاکھ 40 ہزار تک پہنچ گئی تھی لیکن ہماری روایات میں رعایت کی اجازت ہے اس لیے 72 لاکھ روپے میں بات طے ہوئی۔گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات اور ماہر سمندری حیاتیات عبدالرحیم بلوچ کا کہنا تھا کہ یورپ اور چین میں بڑی کروکر مچھلی کی طلب بہت زیادہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ کچھ مچھلیاں اپنے گوشت کی وجہ سے مہنگی ہوتی ہیں لیکن یہ مچھلی (بڑی کروکر) کی طلب زیادہ ہونے کی وجہ اس کے اعضا کا ادویات اور سرجری میں استعمال ہے۔
۔واضح رہے کہ اس سے سے قبل بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر کے ماہی گیر عبدالحق اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر افراد کی اس وقت خوشی کی انتہا نہیں رہی جب انھوں نے اپنے جال میں ایک کروکر(Croaker) مچھلی کو دیکھا۔یہ اگرچہ وزن اور لمبائی کے لحاظ سے بہت بڑی مچھلی نہیں تھی لیکن تھی قیمتی، اس لیے انھوں نے اسے مارکیٹ پہنچانے میں دیر نہیں لگائی۔عبدالحق کے چچازاد بھائی راشد کریم بلوچ نے بتایا کہ 26 کلو یہ وزنی مچھلی سات لاکھ 80 ہزار روپے میں بک گئی۔راشد کریم نے بتایا کہ اس مچھلی کو پکڑنے کے لیے دو ماہ تک جتن کرنے پڑتے ہیں اور یہ اتنی طویل کوشش کے بعد اگر کسی دن آپ کے جال میں آجائے توخوشی تو بنتی ہے۔اس قیمتی مچھلی کو انگریزی میں کروکر، اردو میں سوا اور بلوچی میں کر کہا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ مچھلی جیونی کے ساحلی علاقوں سے پکڑی گئی۔یہ علاقہ ضلع گوادر میں ایرانی سرحد سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔راشد کریم نے بتایا کہ اس مچھلی کے شکار کے دو مہینے ہوتے ہیں اس لیے اس کو پکڑنے کے لیے ماہی گیروں کو بہت سارے جتن کرنے پڑتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ عبدالحق اور ان کے ساتھی معمول کی ماہی گیری میں مصروف تھے کہ جال پھینکنے کے
بعد جب انھوں نے اسے باہر کھینچ لیا تو اس میں ایک کروکر مچھلی تھی۔مچھلی کی بولی فی کلو 30 ہزار روپے میں لگی راشد کریم نے بتایا کہ جب اچانک کوئی قیمتی چیز کسی کے ہاتھ میں آجائے تو خوشی ایک فطری بات ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ مچھلیاں وزنی بھی ہوتی ہیں اور ان کی جسامت بھی بڑی ہوتی ہے۔انھوں نے بتایا کہ چند سال قبل ایک شخص نے ایک زیادہ وزنی کروکر مچھلی پکڑی تھی جو کہ 17 لاکھ روپے میں بک گئی تھی لیکن عبد الحق اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں نے جو مچھلی
پکڑی تھی اس کا وزن کم یعنی 26 کلو تھا۔ان کا کہنا تھا مارکیٹ میں جب اس کی بولی لگنی شروع ہوئی تو اس کی آخری بولی لگی 30 ہزار روپے فی کلو پر آ کر رک گئی اور اس طرح یہ سات لاکھ 80 ہزار روپے میں فروخت ہو گئی۔گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر انوائرنمنٹ و میرین بائیولوجسٹ عبدالرحیم بلوچ نے بتایا کہ بعض مچھلیاں اپنے گوشت کی وجہ سے بہت زیادہ قیمتی ہوتی ہیں لیکن کروکر کے حوالے سے معاملہ مختلف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کروکر کی قیمت دراصل اس کی ایئر بلیڈر کی
وجہ سے ہے جس میں ہوا بھرنے کی وجہ سے وہ تیرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس مچھلی کا ایئر بلیڈر طبی استعمال میں آتا ہے اور چین، جاپان اور یورپ میں اس کی مانگ ہے۔انھوں نے بتایا کہ کروکر مچھلی کا ایئر بلیڈر انسانی جسم کے اندرونی اعضا میں دورانِ سرجری لگائے جانے والے ٹانکوں بالخصوص دل کے آپریشن میں سٹچنگ وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ بلوچی میں اس مچھلی کا
نام اس کی آواز کی وجہ سے کر رکھا گیا ہے۔عبد الرحیم بلوچ نے بتایا کہ یہ مچھلی کر، کر کی آواز نکالتی ہے۔انھوں نے بتایا کہ یہ مینگرووز کے علاقے میں چھوٹی چھوٹی دراڑوں میں انڈے دینے کے لیے آتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جو ماہر ماہی گیر ہوتے ہیں وہ اس کی آواز کا اندازہ لگا کر وہاں اپنا جال پھینک کر اس کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔راشد کریم بلوچ نے بتایا کہ اس مچھلی کی آواز سننے کے بعد ماہی گیر اپنا جال اس علاقے میں پھینکتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ جب گھنٹہ ڈیڑھ کے بعد اس کی آواز بند ہوتی ہے تو پھر جال کو باہر کھینچا جاتا ہے اور مچھلی کو نکال لیا جاتا ہے