ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

الیکشن کمیشن فرائض انجام دہی میں ناکام ہو چکا، حکومت نے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین سے استعفیٰ مانگ لیا

datetime 15  مارچ‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی) وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر تے ہوئے کہاہے کہ الیکشن کمیشن فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہو چکا، نیوٹرل ایمپائر کا کردار ادا نہیں کررہا، چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین فوری استعفیٰ دیں اور پارلیمان کو موقع دیا جائے کہ نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا

جائے جس پر سب کا اعتماد ہو، سینیٹ انتخابات میں پھر منڈیاں لگیں، دوسری جماعتوں کو بھی الیکشن کمیشن پر تحفظات ہیں، کوئی بھی جماعت ای سی پی سے خوش نہیں،وزیراعظم سینیٹ الیکشن کی شفافیت کے لیے چاہتے تھے کہ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہو، عمران خان کرکٹ میں بھی نیوٹرل امپائر لے کر آئے، الیکشن کمیشن کو نیوٹرل ہونا چاہیے،الیکشن کمیشن کے خلاف کوئی ریفرنس دائر نہیں کریں گے۔ یہ مطالبہ پیر کووفاقی وزراء سینیٹر شبلی فراز، شفقت محمود ار فواد چوہدری نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے معاون خصوصی شہباز گل پر سیاہی اور انڈے پھینکنے کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ شہباز گل کے ساتھ جو ہوا ہے، اگر یہ اسی طرح چلتا رہا تو سیاست ایک حد سے بڑھ کر تشدد پر آ جائے گی۔انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ(ن) کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ وہ سیاست کو کس طرف لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، اس کلچر کو فروغ دینے کا جو وطیرہ بنایا گیا ہے اس کو ختم کریں اور سیاست کو سیاست سمجھ کر کریں۔سینیٹ الیکشن کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان کا بڑے عرصے سے یہ مطالبہ تھا کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں پیسے وغیرہ کی سرگرمیوں کو ختم ہوں تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ

سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے ہو۔انہوں نے کہاکہ 2015 میں جب نواز شریف نے اوپن بیلٹ کا قانون لانے کی کوشش کی تو وزیراعظم نے مسلم لیگ(ن) سے سیاسی اختلافات کے باوجود اس کا خیرمقدم کیا کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست صاف و شفاف ہو۔انہوں نے کہا کہ 2018 میں پھر منڈیاں لگیں اور تحریک انصاف

واحد پارٹی ہے جس نے اپنے اراکین کے خلاف ایکشن لیا جن کے بارے میں پتہ چلا کہ انہوں نے پیسے کی لین دین کی۔انہوں نے کہاکہ 2021 کے سینیٹ انتخابات کے لیے ہم نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جس پر اعلیٰ عدلیہ نے کہا کہ اگر آپ نے ووٹنگ کا طریقہ کار بدلنا ہے تو اس کے لیے آئینی ترمیم ہونی ضروری ہے تاہم انہوں

کچھ اور بھی ہدایت اور 218(3) کا حوالہ دیا جو اس بارے میں بڑی واضح ہے۔وزیر تعلیم نے کہا کہ یہ شق کہتی ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا یہ فرض ہو گا کہ وہ انتخاب کا انتظام کرے اور اسے منعقد کرائے اور ایسے انتظامات کرے جو اس امر کے اطمینان کیلئے ضروری ہوں کہ انتخاب ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ اور قانون کے

مطابق منعقد ہو اور یہ کہ بدعنوانی کا سدباب ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے چیف الیکشن کمشنر سے وفد کی صورت میں ملاقات کر کے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ووٹ خفیہ رکھنے کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی اور اس کا کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہے کہ اگر آپ نے بدعنوان

طریقوں کو روکنا ہے تو اس کا کوئی طریقہ بنایا جائے اور استدعا کی کہ اس پر کوئی نشانی آج ئے تاکہ اگر ضرورت پڑے تو موقع پر موجود لوگوں کو بے شک نظر نہ آئے لیکن اگر بعد میں ضرورت پڑے تو اس کی تحقیق کی جا سکے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کو مسترد کردیا گیا اور کمیٹی بنا کر کہا گیا کہ آئندہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سینیٹ کی جس سیٹ پر اسلام آباد میں الیکشن ہوا، اس میں یوسف رضا گیلانی 169 ووٹ لیتے ہیں اور تحریک انصاف کا امیدوار 164 ووٹ لیتا ہے جبکہ خواتین کی نشست پر 174 اور 164 کا فرق ہے تو صاف ظاہر ہو گیا کہ اس میں بدعنوان طریقوں کا استعمال کیا گیا۔تحریک انصاف کے رہنما

نے کہا کہ یہ ساری چیزیں عیاں اور الیکشن کمیشن کے سامنے تھیں لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن اس الیکشن کو شفاف بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔انہوں نے کہاکہ سینیٹ انتخابات کے بعد صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت اس سے خوش نہیں ہے، ہر کوئی تنقید کررہا ہے، کوئی بھی فرد ایسا ہے جو یہ کہہ رہا ہو کہ یہ الیکشن

ٹھیک ہوا ہے اور یہ چیز عمران خان کے مؤقف کی تائید کرتی ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن شفاف ہوں تو اس میں ہمیں ایسا طریقہ اپنانا چاہیے جس سے پیسے کا لین دین ختم ہو۔انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ناکامی ہے، وہ اپنی ذمے داریوں کو نبھا نہیں سکا، کسی کو الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں رہا تو اس کا حل یہی ہے

کہ الیکشن کمیشن موجودہ حالت میں نہیں چل سکتی اور بحیثیت مجموعی استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر کوئی اور طریقہ نہیں ہے کہ جس سے اعتماد بحال ہو سکے۔وزیر تعلیم نے کہا کہ اگر سیاسی لوگوں اور ملک کے عوام کا الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں ہو گا اور اس کے فیصلوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا تو اس کے سوا

کوئی چارہ نہیں ہے موجودہ الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریوں سے دستبردار ہو اور استعفیٰ دے۔انہوں نے کہا کہ یہی طریقہ ہے کہ جس سے ایک نیا الیکشن کمیشن بنے اور ایک الیکشن کمیشن بنے جس پر اعتماد ہو اور ہمیں یقینی بنانا چاہے کہ آئندہ جو بھی الیکشن ہو وہ شفاف ہو اور اس پر کوئی آواز نہ اٹھے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…