اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پی ڈی ایم اس بارے میں حددرجہ پر اعتماد ہے کہ وہ تین مارچ کو ایوان بالا کے انتخابات میں فتح سے ہمکنار ہوگی گوکہ اس اعتماد کے محرکات اور یقین کو اپنی حکمت عملی کے تحت منظر عام پر نہ لانے کا جواز پیش کرتے ہوئے انتظار کرو اور دیکھوکے جواب پر اکتفا کرنے کیلئے کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہ وہ وقت آنے پر ہی اس
حوالے سے مزید گفتگو کرسکتے ہیں۔روزنامہ جنگ میں فاروق اقدس کی شائع خبر کے مطابق اپوزیشن کے ایک معتبر ذریعے نے محتاط لفظوں میں گفتگو کرتے ہوئے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد کہ کہیں بھی ان کا حوالہ اشارتاً بھی نہیں دیا جائے گا بتایا کہ پی ڈی ایم آج بھی یہ ثابت کرسکتی ہے کہ ہم سینٹ کا الیکشن ہرصورت جیتنے کی عددی اکثریت رکھتے ہیں۔ تاہم جب ان سے یہ استفسار کیا گیا کہ اگر آپ کا یہ دعویٰ درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر اگست 2019 میں جب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تھی اور ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر ان پر عدم اعتماد کا اظہارکیا تھا لیکن نظر آنے والی عددی اکثریت کے باوجود نتائج کے اعتبار سے حکومت جیت گئی تھی لیکن اس تلخ تجربے کے باوجود نہ صرف پی ڈی ایم سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے بلکہ جیت کے بارے میں اتنی پر اعتماد کیوں ہے جب کہ حالات اور کردار بھی تبدیل نہیں ہوئے ،وہی ہیں جن میں
انہیں شکست ہوئی تھی۔ جس پر مذکورہ شخصیت کا کہنا تھا کہ یہ بات بالکل درست ہے لیکن جو ترجمان اعلانیہ طور پر ٹی وی پر آ کر بیان دیتے ہیں کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور انہیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے ہم ان کے اس بیان پر یقین اور اعتماد کرتے ہوئے انھیں آزما رہے
ہیں اورسینٹ کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور اگر قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ ہوا تو اس کے پس منظر میں بھی ترجمان کا دعویٰ اور یقین دہانی ہی ہوگی بصورت دیگر ہمارے پاس لانگ مارچ کا آپشن تو موجود ہے لیکن ہم ترجمان کی جانب سے غیرجانبداری کی یقین دہانی کو ایک مرتبہ ضرور آزمائیں گے۔