اسلام آباد(نیوزڈیسک)اسلام آباد(طارق بٹ) چیف جسٹس ناصر الملک کی ریٹائرمنٹ میں 38روز باقی رہ گئے ہیں ، لیکن وہ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل 2013کے عام انتخابات کےبارے میں عدالتی کمیشن کے ذریعے ہونیوالی تحقیقات کی رپورٹ جاری کرینگے، اور آئینی ترامیم کے حوالےسے بھی فیصلہ جاری کرینگے ، جس کے ذریعے فوجی عدالتوں کے مقدر کا تعین ہوگا۔ اس ضمن میں فیصلے چیف جسٹس کے انفرادی فیصلے نہیں ہونگے بلکہ فل کورٹ اور عدالتی کمیشن کے فیصلے ہونگے، اگر وہ یہ فیصلے خود نہ بھی تحریر کریں تو بھی وہ ان دونوں کا ہی حصہ ہونگے۔ عدالت عظمیٰ نے دونوں ہی معاملات کے فیصلے محفوظ کرلیے ہیں، دونوں امور پر ججوں نے بہت زیادہ تبادلہ خیال کیا ، یہ دونوں معاملات انتہائی اہم ہیں اور قومی سیاست پر ان کے دورس نتائج مرتب ہونگے۔ تین رکنی عدالتی کمیشن کی رپورٹ گزشتہ عام انتخابات میں مینڈیٹ چرائے جانے یا دھاندلی ہونے یا نہ ہونے پر تبصرہ کریگی ، جبکہ عدالت عظمیٰ کا 17رکنی فل کورٹ بینچ فوجی عدالتوں کےمقدر کا فیصلہ کریگا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ ناصر الملک رواں برس16اگست کو ریٹائر ہونگے ، انہوں نے اپنے عہدے کا چارج جولائی 2014میں سنبھالا تھا۔ ان کےریٹائر ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس جواد ایس خواجہ 17اگست کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھائینگے اور محض 23روز بعد 10ستمبر کو ریٹائر ہوجائینگے، ان کے بعد جسٹس انور ظہیر جمالی اس عہدے پر براجمان ہونگے اور تقریباً 15ماہ تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہینگے۔ سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے 21ویں آئینی ترمیم کے مقدمے کی سماعت کی ، جس کے ذریعے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی عدالتوں کو سویلینز کے ٹرائل کا اختیار دیا گیا تھا، جبکہ اس ترمیم کی روشنی میں آرمی ایکٹ میں بھی تبدیلی کی گئی تھی۔ 21ویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پربہت تیزی سے منظور کیا تھا ، یہ ترمیم قومی ایکشن پلان کا حصہ تھی ، جسے پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وضع کیا گیا تھا۔ جب سے فوجی عدالتیں قائم ہوئی ہیں ، انہوں نے سست روی سے کارروائی کی ، بظاہر اس کی وجہ سپریم کورٹ میں 21ویں آئینی ترمیم کےمقدمے کا زیر التواء فیصلہ تھا۔ تاہم فوج اب بھی ان عدالتوں کے قیام کی اتنی ہی خواہاں ہےجتنی وہ 21ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان کے قیام کے وقت تھی۔