اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اسلام آباد پولیس میں تعینات ایس پی عدیل اکبر کی موت سے متعلق نئے انکشافات سامنے آئے ہیں، جن میں ان کی ہلاکت کو خودکشی نہیں بلکہ حادثاتی گولی لگنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پولیس حکام نے بتایا کہ ابتدائی شواہد اور فرانزک رپورٹ کے تجزیے سے یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ گولی حادثاتی طور پر چلی۔ پولیس ذرائع کے مطابق پولیس سروس آف پاکستان (PSP) سے وابستہ افسران عام طور پر سب مشین گنز (SMGs) کے استعمال کی باقاعدہ تربیت نہیں رکھتے۔
فرانزک ماہرین نے بتایا ہے کہ واقعے میں استعمال ہونے والی ایس ایم جی تقریباً 65 ڈگری زاویے پر فائر ہوئی، جس سے یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ ایس پی عدیل اکبر نے جان بوجھ کر نہیں بلکہ غلطی سے خود کو گولی مار لی۔
ذرائع کے مطابق واقعے کے وقت گاڑی میں موجود آپریٹر اور ڈرائیور کو حراست میں لے کر ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ حکام دونوں سے واقعے کے دوران ہونے والی گفتگو، ایس پی عدیل اکبر کے موبائل فون پر موصول ہونے والی کالز اور اس بات کی چھان بین کر رہے ہیں کہ انہوں نے اسلحہ کیوں مانگا اور انہیں کیوں دیا گیا۔
زیر حراست آپریٹر نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ ایس پی عدیل اکبر اپنی پروموشن سے متعلق ملاقات کے لیے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جا رہے تھے۔ ان کے مطابق، 4 بج کر 23 منٹ پر ایس پی عدیل اکبر کو ایک کال موصول ہوئی جس کے بعد انہوں نے ڈرائیور کو دفترِ خارجہ جانے کی ہدایت دی۔ وہ وہاں کچھ کاغذات کی تصدیق کے لیے گئے اور کچھ دیر بعد واپس آگئے۔
آپریٹر کے بیان کے مطابق، واپس آنے کے بعد ایس پی عدیل اکبر کو ایک اور فون کال موصول ہوئی۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے ایک نجی ہوٹل کے سامنے مجھ سے گن مانگی۔ “میں نے گن کا میگزین نکال کر انہیں دیا۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ گن چلتی بھی ہے یا نہیں؟ لاؤ میگزین دے دو، اس میں کتنی گولیاں ہیں؟” میں نے جواب دیا کہ “اس میں 50 گولیاں ہیں” اور میگزین انہیں دے دیا۔
آپریٹر نے مزید بتایا کہ ایس پی عدیل اکبر گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھے تھے جبکہ وہ اور ڈرائیور آگے موجود تھے۔ عدیل اکبر نے میگزین لگا کر گن لوڈ کی، اور چند لمحوں بعد اچانک فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ “جب ہم نے پیچھے دیکھا تو گولی ان کے ماتھے پر لگی تھی جو سر کے پچھلے حصے سے نکل گئی۔ وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔”
ان کے مطابق، اطلاع فوراً کنٹرول روم کو دی گئی اور ڈرائیور کے ہمراہ لاش کو فوری طور پر پمز اسپتال منتقل کیا گیا۔ پولیس نے واقعے کی مزید تحقیقات شروع کر دی ہیں تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ فائر واقعی حادثاتی تھا یا اس کے پیچھے کوئی اور وجہ پوشیدہ ہے۔















































