اسلام آباد(آن لائن ) جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جب تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہمارے تحفظات دور نہیں کرتی ہیں، اس وقت اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی نہیں ہوگی ، حکومت نے ایف اے ٹی ایف سمیت دیگر بلز پر مشاورت کیلئے ایم ایم اے کو اعتماد میں نہیں لیا ہے حکومت کی خارجہ پالیسی ناکام ہوچکی ہے بیرونی دبائو پر قانون سازی کی جارہی ہے۔ اپنی رہائشگا ہ پر
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ قومی اسمبلی سینیٹ اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل لائے جارہے ہیں جس کی جمعیت علمائے اسلام نے اصولوں کے منافی قرار د یتے ہوئے مخالفت کی تھی انہوںنے کہاکہ اسپیکرقومی اسمبلی نے چند جماعتوں کے نمائندوں کو گھر بلایا تاہم جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر جماعتوں سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گی انہوں نے کہاکہ حکومت پر قانون سازی کے معاملے پر عجلت سوار ہے جس سے بدنیتی ظاہر ہوتی ہے انہوںنے کہاکہ پارلیمنٹ میں جوقانون سازی کی جارہی ہے اس پر جے یو آئی نے اپنا موقف سامنے رکھا ہے اور ان بلز کی مخالفت کرتے ہوئے اسے پاکستان کے منافی قرار دیا ہے انہوںنے کہاکہ پارلیمنٹ میں قانون سازی سے قبل ارکین پارلیمنٹ کو مشاورت کا وقت دیا جاتا ہے مگرعجیب بات ہے کہ سپیکر چند جماعتوں کو بلاکر مشورہ کرتے ہیں ایم ایم اے سمیت کچھ دوسری جماعتوں کو مشاورت سے دور رکھا جاتا ہے یہ جمہوریت کے خلاف تھا ہمیںنہ بلز کو سمجھنے کا موقع دیا گیا ہے اور نہ ہی ہمارے ساتھ مشاورت کی جاتی ہے انہوںنے کہاکہ ہم نے اس پر سوچ بچار کی ہے اورجے یو آئی کے پارلیمانی لیڈرز سمیت ارکان کے اجلاس کے بعدایف اے ٹی ایف بلز پر ایک اعلامیہ جاری کیا جارہا ہے جس کے مطابق حکومت نے ایف اے ٹی ایف سے دباو میں بل پاس کرایا ہے اور پاکستان پر دباو ڈالے والوں میں انڈیا بھی شامل ہے
اانہوںنے کہاکہ ہماری سفارت کاری کہاں گئی حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کو کشمیر کے حوالے سے قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کا کیوں نہیں کہا پاکستان بھارت اور دنیا کے دباو پر ایف اے ٹی یف قوانین بنا رہا ہے ہماری سفارتکاری کہاں گئی کہ کشمیر پر بات نہ ہوئی اگر کل اقوام متحدہ یا ایف اے ٹی ایف کشمیر کے حریت پسندوں کو بھی دہشتگرد قرار دیتی ہے تو کیا کریں گے کشمیری حریت پسندوں کے لئے کوئی گنجائش اس قانون میں نہیں
رکھی گئی اس نااہل حکومت کو دبائو میں لاکر قانون سازی کی جارہی ہے انہوںنے کہاکہ بلیک لسٹ سے بچانے کے دعوے ہورہے ہیں یہ پہلی بارنہیں کہ ہم گرے لسٹ میں ہیں اس سے قبل پی پی دور میں ہم بلیک لسٹ میں گئے تھے اور اگلی حکومت آئی تو پھر وائٹ لسٹ پر آگئے اس سے قبل پی پی پی اور ن لیگ کو ایسی قانون سازی پر کیوں مجبور نہیں کیا جاسکا انہوںنے کہاکہ کشمیر پر ہماری سفارتکاری ناکام ہوگئی ہے حکومت نے سعودی عرب کو
ناراض کردیا ہے جبکہ سی پیک منصوبوں پرعمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے چین بھی ناراض ہے اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ترمیم لانے کی کوشش کی جس کو رد کردیا موجودہ حکومت قوم کو مغرب کی غلامی میں دینے کے ایجنڈے پر گامزن ہے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پر بل کی مخالفت اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا انہوںنے کہاکہ ہمیں جواب دینا آتے ہیں لیکن احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا عید سے قبل بلاول اور شہبازشریف سے ملاقات ہوئی تھی اور عید کے بعد رہبر کمیٹی اجلاس ہونا تھا مگر اگلے روز دونوں پارٹیوں نے حکومت کو ووٹ دے دیا میں دونوں بڑی پارٹیوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ انہیں حکومت سے بلیک میل ہونے کی کیا ضرورت تھی اب اے پی سی بلانے کیلئے اپوزیشن کی بڑی جماعتیں رابطہ کررہی ہیں مگر جب ہمارے تحفظات دور ہوجائیں گے تو اے پی سی بھی ہوجائے گی۔