تہران (این این آئی)افغانستان کی سرحد سے متصل جنوب مشرقی ایران میں ایک اہم ریل منصوبے سے نکالے جانے کے بعد بھارت کا 10سال سے جاری اہم گیس فیلڈ منصوبے سے بھی محروم ہونے کا امکان ہے۔ ہندوستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ تہران خلیج فارس کے علاقے میں فرزاد-بی گیس فیلڈ کو اپنے طور پر تیار کرے گا اور ممکن ہے کہ ہندوستان کو بعد میں کسی مرحلے پر مناسب طور پر شامل کرے۔
گزشتہ ہفتے نیشنل ایرانی آئل کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر مسعود کرباسیان نے صحافیوں کو بتایا کہ ہندوستان کی او این جی سی کی جگہ گیس فیلڈ تیار کرنے کے لیے ایک نیا آپریٹر تیار کر لیا گیا ہے۔اس فیلڈ میں اندازے کے مطابق 21.7 ٹریلین مکعب فٹ قدرتی گیس کے ذخائر ہوں گے، 12.8 کھرب مکعب فٹ قدرتی گیس اور 212 ملین بیرل گیس گاڑھا ہونا شامل ہے جسے 2008 میں تین ہندوستانی کمپنیوں او این جی سی، آئل انڈیا لمیٹڈ اور انڈین آئل کارپوریشن نے مل کر دریافت کیا تھا۔معاہدے کے مطابق ہندوستانی فیلڈ نے اس میدان کو تیار کرنا تھا تاہم ایران کے خلاف پابندیوں کی شدت میں اضافے کے بعد انہوں نے سال2012 میں اچانک کام روک دیا تھا۔ایران اور مغربی ممالک کے مابین جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد سن 2015 میں پابندیوں میں نرمی لانے کے بعد بھارت نے اس منصوبے میں واپسی پر آمادگی ظاہر کی تھی۔اس معاملے سے باخبر ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مئی 2018 میں ایران پر امریکی پابندیوں کی بحالی کے مابین معاملات پھر خراب ہو گئے تھے اور بات نے اس منصوبے پر پیش قدمی میں بھارت کی حوصلہ شکنی کی تھی۔ذرائع نے بتایا کہ مئی 2018 تک دونوں فریقوں نے زبردست پیشرفت کی تھی اور اس منصوبے کی اہم تفصیلات پر اتفاق کیا تھا تاہم امریکی پابندیوں نے معاملات خراب کر دئیے تھے۔اطلاعات کے مطابق دونوں فریقین کے مابین آپس میں بھی خصوصاً ترقیاتی منصوبے میں
رکھی جانے والی پائپ لائنوں کی تعداد اور مالی سرمایہ کاری پر اختلافات تھے۔مئی 2019 میں ایران کے وزیر تیل بیجن نمدار زنگانے نے کہا تھا کہ ان کی وزارت نے فرزاد بی گیس فیلڈ کی تیاری کے سلسلے میں مالی اعانت کا ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ نیشنل ایرانین آئل کمپنی (این آئی او سی) نے ہندوستانی فریق سے اس فیلڈ کی تیاری کے لیے ایک مالی منصوبہ پیش کرنے کو کہا تھا تاہم ذرائع نے بتایا کہ ایران اس منصوبے سے متاثر
نہیں ہوا اور نیا منصوبہ تیار کرنے کے لیے کہا، بھارت نے مبینہ طور پر 5.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا تھا۔اگست 2019 میں ہندوستان کی طرف سے ایک نیا منصوبہ پیش کرنے میں سست روی کے بعد کرباسین نے کہا کہ ایران اس منصوبے کے لیے ایک اور آپریٹر کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ہندوستان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ایران کی جانب سے پالیسی میں تبدیلی سے دو طرفہ تعاون متاثر ہوا۔تہران میں مقیم تجزیہ کاروں
نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہندوستان کے ہاتھ سے اس منصوبے کے نکلنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے کیونکہ فرزاد بی گیس فیلڈ اور چابہار بندرگاہ دو دونوں فریقین کے دوطرفہ تعلقات کے سلسلے میں بہت بڑی کامیابی تھی۔ابتدائی اطلاعات میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت کی جانب سے کام شروع کرنے میں ہچکچاہٹ کے اظہار کے بعد بعد ایران نے ہندوستان کو
ریل منصوبے سے نکال دیا تھا۔بندرگاہ کے حامل شہر چابہار سے زاہدان تک 628 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے دونوں فریقین میں مفاہمت کی یادداشت کے لیے مئی 2016 میں پہلی بار مرتبہ تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔معاہدے پر اس وقت دستخط کیے گئے تھے جب جنوب مشرقی ایران میں چابہار بندرگاہ کے ذریعے ہندوستان سے افغانستان تک ٹرانسپورٹ اور تجارتی راہداری تیار کرنے کے لیے ہندوستان، ایران اور افغانستان کے درمیان سہ
فریقی معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے، یہ بندرگاہ 2016 سے چل رہی ہے اور اسے امریکی پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہے۔ہندوستانی وزارت خارجہ نے ایران کی جانب سے بھارت کو نکالے جانے کی خبروں کو قیاس آرائیاں قرار دیتے ہوئے کہا کہ تہران کو بقایا فنی اور مالی امور کو حتمی شکل دینے کے لیے کسی مجاز ادارے کو نامزد کرنا تھا اور یہ معاملہ ابھی زیر التوا ہے۔وزارت خارجہ نے بیان میں کہا تھا کہ ایرکون کو اس منصوبے کی فزیبلٹی
کا جائزہ لینے کے لیے بھارتی حکومت ہند نے مقرر کیا تھا، وہ اس سلسلے میں ان کی وزارت ریلوے کے ماتحت ایک ایرانی کمپنی سی ڈی ٹی آئی سی کے ساتھ کام کر رہی تھی، ایرکون نے سائٹ کا جازئزہ لینے کے بعد فزیبلٹی رپورٹ مکمل کر لی تھی۔بیان میں کہا گیا کہ اس کے بعد اس منصوبے کے دوسرے متعلقہ پہلوؤں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا جس میں ایران کو درپیش ان مالی چیلنجوں کو بھی مدنظر رکھنا پڑا، دسمبر 2019 میں تہران میں
ہندوستان-ایران مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں ان امور کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ایران کی بندرگاہوں اور میری ٹائم آرگنائزیشن کے ایک عہدیدار نے بھی ان خبروں کی تردید کی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ایران نے چابہار-زاہدان ریلوے کی تعمیر کے لیے ‘ہندوستان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا ہے’۔فرہاد مونٹسر نے کہا تھا کہ ایران نے چابہار میں سرمایہ کاری کے لیے ہندوستانیوں کے ساتھ صرف دو معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، ایک بندرگاہ کی مشینری اور سامان سے متعلق ہے
اور دوسرا ہندوستان کی 150ملین کی سرمایہ کاری سے متعلق ہے۔ہندوستان کی ارکون اور ایران کی سی ڈی ٹی آئی سی کے درمیان 2016 کی مفاہمتی یادداشت کے مطابق ارکون کو چابہار- زاہدان ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے ضروری خدمات فراہم کرنا تھی جو بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ اور ٹرانسپورٹیشن کے سہ فریقی معاہدے کا حصہ تھا۔1.6ارب مالیت سے ریلوے لائن تعمیر ہونا تھی تاہم دونوں فریقین کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے جس کے بعد گزشتہ ایران نے اپنے طور پر منصوبہ شروع کرتے ہوئے لائن بچھانے کا سنگ بنیاد رکھ دیا اور یہ ریلوے لائن زنراج سے افغانستان تک جائے گی۔