لندن (آن لائن) وٹامن ڈی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس سے تھکان دور ہوتی ہے، یہاں تک کہ کینسر کا علاج بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن چند طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند افراد کو اس قسم کے اضافی وٹامنز سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔برطانوی ما ہرین صحت کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کا کہا جا رہا ہے تو ہم میں سے کئی لوگ اس دوران اپنی غذا میں شامل اجزا کی جانب کافی توجہ دے رہے ہیں
اور یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ وہ کس طرح اپنی صحت کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھ سکتے ہیں۔بر طانوی ماہرین صحت غذاؤں کے اجزا کی ترتیب میں رد و بدل، باورچی خانوں کے سٹورز میں مزے دار کھانے بنانے کی ترکیبوں اور لاک ڈاؤن میں کھانوں کے بارے میں مختلف پہلوؤں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ہم میں سے بہت سے لوگ اب لاک ڈاؤن کے دوران سماجی فاصلے کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں، اس لیے سورج کی روشنی کی کمی کے بارے میں ان میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ اور اس کی وجہ سے وٹامن ڈی کی ممکنہ کمی کا بھی خدشہ بڑھ رہا ہے۔ ایسے کئی لوگوں کے لیے اس کا آسان حل یہ ہے کہ وہ سپلیمنٹس (اضافی وٹامنز) کھانا شروع کر دیں۔آخر ان سپلیمینٹس کی تشہیر بھی تو غیر قدرتی خوراک کے طور پر بہت زیادہ کی جاتی رہی ہے۔ وٹامن ڈی 2 اور ڈی 3 والے سپلیمینٹس ادویات کی ہر دکان سے ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر بآسانی دستیاب ہو جاتے ہیں اور پھر جسم میں ان کی کمی کا تعلق قوتِ مدافعت، تھکان، پٹھوں اور ہڈیوں کے کمزور ہونے سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان وٹامنز سے کینسر کا علاج کیا جا سکتا ہے اور بڑھاپے کے اثرات کو بھی روکا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر ز کے مطابق وٹامن ڈی کیلشیم اور فاسفیٹ کو مربوط اور منظم کر کے ہماری ہڈیوں کی نشو و نما اور ان کی صحت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ اس کے کمی سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے ہمیشہ اس کمی کو دور کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
اور اس وجہ سے اس کا استعمال آپ کی سوچ سے بھی زیادہ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں 20 فیصد آبادی میں وٹامن ڈی کی بہت زیادہ کمی ہے۔تاہم کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند افراد کو وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس کی ضرورت نہیں ہوتی ہے یعنی دوسرے الفاظ میں یہ ماہرین کہتے ہی کہ صحت مند لوگوں میں وٹامن ڈی کسی آنے والی بیماری سے نہیں بچاتا ہے۔وٹامن ڈی مچھلی کے تیل جیسی غدا میں پایا جاتا ہے۔وٹامن ڈی دو اقسام کے ہوتے ہیں۔
پہلا وٹامن ڈی 3 ہوتا ہے جو کہ مچھلی سمیت چند ایک اور جانوروں سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور انسانی جسم سے جب وہ شورج کی شعاعوں کے سامنے ہو۔وٹامن ڈی کی دوسری قسم ڈی 2 کہلاتی ہے جو کھمبیوں (مشروم) جیسی سبزیوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ ڈی 3 زیادہ موثر ہوتا ہے اور سنہ 2012 کے ایک بڑے تجزیے کے مطابق سپلیمینٹس کے طور پر وٹامن ڈی 3 کے استعمال کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔موجودہ دور میں برطانیہ کے صحت کا ادارہ لوگوں کے لیے تجویز کرتا ہے کہ 10 مائیکرو گرام وٹامن ڈی سردیوں اور موسمِ خزاں میں استعمال کریں
کیونکہ ان موسموں میں سورج کی کرنوں کا اس خطہِ ارض پر ایسا زاویہ بنتا ہے جس کی وجہ سے ان شعاعوں میں ’یو وی بی‘ زمین کے ماحول میں داخل نہیں ہو پاتی ہیں۔دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح کی ہدایات دی جاتی ہیں۔تاہم موجودہ وبا کے دوران سیلف آئسولیشن کی وجہ سے اب کم از کم ایسوسی ایشن آف یو کے ڈائٹیشینز نے ان ہدایات کو زیادہ پھیلا دیا ہے۔ رواں برس مارچ میں جاری کی گئی ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’اگر آپ کو خود سے الگ تھلگ ہونا پڑتا ہے یا آپ باہر نہیں جا سکتے ہیں تو آپ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ آپ کو وٹامن ڈی کی مناسب مقدار ملے، آپ کو 10 مائیکرو گرام سپلیمینٹس استعمال کرنے پر غور کرنا چاہیے۔‘
ماہرین کے مطابق وٹامن ڈی کی مقدار میں کمی سے پٹھوں میں کمزوری اور جسم میں تھکان پیدا ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے ذریعے معلوم ہوا کہ جن لوگوں میں تھکان زیادہ دیکھی گئی ان میں وٹامن ڈی کی کمی بھی تھی اور جب انھیں پانچ ہفتوں تک وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس دیے گئے تو ان میں یہ تھکان دور ہو گئی۔جبکہ نیو کاسل یونیورسٹی کی ایک چھوٹی سی تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی تھکان اس لیے پیدا کرتی ہے کیونکہ اس کمی سے میٹوکونڈریا پیدا ہوتا ہے یعنی تولیدی خلیوں میں پایا جانے والا جسیمہ جس میں تنفس اور توانائی کی پیدائش کے لیے جو خامرے موجود ہوتے ہیں ان کی صلاحیت منفی طور پر متاثر ہوتی ہے۔کینسر کے مریضوں کے مطالعے سے اسی قسم کے اثرات دیکھنے کو ملے ہیں۔
وٹامن ڈی سے جسم کا دفاعی نظام بھی بیکٹریا کو ختم کرنے سے بہتر ہوتا ہے۔لیکن وٹامن ڈی کی اہمیت کا مطلب یہ نہیں کہ صحت مند افراد کو وٹامن ڈی کے سپلیمینٹس کی ہر حال میں ضرورت ہوتی ہے۔ اس بات پر غور کیجیے کہ ان سپلیمینٹس کی ضرورت کی وجہ کیا ہے: ہڈیوں کی نشوونما اور ان کو صحت مند رکھنا۔برطانوی ماہرین صحت کی تحقیق کے مطابق وٹامن کے استعمال کی تازہ ہدایات ان تحقیقات کی بنیاد پر تیار کی گئی تھیں جو کہ بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنے والے مراکز میں رہنے والوں پر کی گئی تھیں جنھیں سورج کی روشنی میں بیٹھنے کے مواقع کم ہی ملتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ہڈیوں ٹوٹنے کے حادثات ہوتے ہیں اور وہ آسٹیوپوروسس (کمزور اور بھربھری ہڈیوں کی بیماری) میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
تاہم کنگز کالج لندن کے جینیاتی وبائیت کے پروفیسر، ٹِم سپیکٹر کہتے ہیں کہ ان تحقیقات میں غالباً نقائص تھے۔سپلیمینٹس لینے کی بنیادی وجہ ہڈیوں کو مضبوط بنانا ہے وٹامن ڈی کے بڑھاپے کے اثرات کے روکنے اور دیگر بیماریوں سے تعلق کے بارے میں بھی متضاد تحقیقی رپورٹیں ہیں۔ایک بڑا دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ وٹامن ڈی جسمانی مدافعاتی نظام کو بہتر کرتا ہے۔ لندن کی کوئین میری یونیورسٹی میں واقع لندن سکلول آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری میں اِمیونیٹی اور ریسپیریٹری انفیکشن کے پروفیسر ایڈرین مارٹینیو جو وٹامن ڈی کے انسانی صحت پر اثرات کا مطالعہ کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ وٹامن ڈی سے نظام تنفس میں انفیکشن پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی نظام تنفس میں انفیکشن کو روکنے میں مدد دیتا ہے۔محققین کے مشاہدہ کے مطابق وٹامن ڈی 3 کے سیرم میں مناسب مقدار برقرار رکھنے سے ڈی 3 پروٹین ہومیوسٹیسِس کو بہتر بناتی ہے اور بڑھاپے کے آثار کے پیدا ہونے کے عمل کو سست کر دیتی ہے۔‘لیکن چند دیگر تحقیقات اس معاملے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکی ہیں۔