واشنگٹن(این این آئی )نوجوان اور صحت افراد جن میں فالج کا خطرہ بڑھانے والے عناصر موجود نہیں ہوتے تاہم نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے نتیجے میں اس کا شکار ہوسکتے ہیں چاہے وبائی مرض کی علامات ظاہر نہ بھی ہو۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔تھامس جیفرسن یونیورسٹی کی تحقیق میں کووڈ 19 کے ایسے
مریضوں کا جائزہ 20 مارچ سے 10 اپریل تک لیا گیا جن میں فالج کا حملہ ہوا تھا اور یہ معمول سے بالکل ہٹ کر تھا۔تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 30، 40 اور 50 کی دہائی کی عمر کے مریضوں میں فالج کی شرح بہت زیادہ تھی جو کہ عام طور پر 70 یا 80 سال سے زائد عمر کے افراد میں دیکھنے میں آتی ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہم زور دیتے ہیں کہ یہ مشاہدات ابتدائی اور 14 مریضوں کے ہیں مگر جو کچھ دریافت کیا وہ فکرمند کردینے والا ہے،نوجوانوں کو ہوسکتا ہے کہ علم ہی نہ ہو کہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہیں، مگر ان میں خون کے کلاٹس اور فالج کا خطرہ ہوسکتا ہے۔اس تحقیق میں شامل 50 فیصد مریضوں کو علم ہی نہیں تھا کہ وہ کورونا وائرس کے شکار ہیں جبکہ باقی میں اس بیماری کی دیگر علامات کا علاج ہورہا تھا جب فالج کا سامنا ہوا۔تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر فالج کی علامات والے مریض کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے ڈر سے ہسپتال جانے سے گریز کریں گے تو تاخیر جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے بعد فالج کا شکار ہونے والے افراد میں اموات کی شرح 42.8 فیصد ہے جبکہ عام طور پر فالج سے موت کی شرح 5 سے 10 فیصد ہوتی ہے۔محققین کے مطابق کورونا وائرس کے شکار 42 فیصد افراد کی عمریں 50 سال سے کم تھیں جبکہ عام طور پر فالج کے شکار ہونے والے افراد کی عمریں 65 سال سے زائد ہوتی ہیں۔مریضوں میں فالج بڑی شریانوں میں ہوا اور یہ مشاہدات فالج کے مریضوں کے حوالے سے غیرمعمولی تھے۔محققین نے بتایا کہ تحقیقی رپورٹس میں کووڈ 19 کے سینے پر مرتب اثرات کی وضاحت زیادہ کی جارہی ہے مگر بہت کم رپورٹس میں اس وائرس کے دماغی اثرات کے بارے میں بتایا گیا ہے۔محققین نے دریافت کیا کہ 59 فیصد مریضوں کی دماغی صحت میں تبدیلیاں آئیں جبکہ 31 فیصد کو فالج کا سامنا ہوا جسے سب سے عام دماغی علامات قرار دیا گیا۔