اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)افغانستان کے دارالحکومت کابل کے دشت برچی ہسپتال کے زچہ بچہ وارڈ میں منگل کی صبح دس بجے تک سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا اور کامیاب ڈیلیوریز کے بعد بہت سے بچے اس دنیا میں آنکھ کھول رہے تھے۔پھر نامعلوم حملہ آوروں نے ہسپتال میں فائرنگ کر دی۔ نومولود بچے، بہت سی مائیں اور ہسپتال کی نرسیں اس حملے میں ہلاک اور زخمی ہوئیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کئی
نوزائیدہ بچے اگرچے اس حملے میں بچ تو گئے لیکن اُن کی مائیں اس دنیا میں نہیں رہیں۔افغان حکام کے مطابق منگل کو اس ہسپتال پر تین مسلح حملہ آوروں نے حملہ کیا تھا اور اس حملے کے نتیجے میں نوزائیدہ بچوں سمیت چوبیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے جبکہ طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔اس حملے میں بچ جانے والی ایسی ہی ایک بچی کو کابل کے ایک انجینیئر فخرالدین جامی اور اُن کی اہلیہ ڈاکٹر مرسل برین نے گود لیا ہے۔فخرالدین جامی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُنھوں نے اس ’بچی کو صرف اور صرف انسانیت کے ناطے اپنایا ہے‘۔’ہمارے ہاں آٹھ ماہ پہلے ایک بیٹا پیدا ہوا تھا۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد میں نے اور میری اہلیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اور بچے پیدا نہیں کریں گے کیونکہ اس دور میں بچوں کو پالنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔‘فخرالدین کے مطابق جب اُنھوں نے منگل کو زچہ بچہ وارڈ پر حملے اور ہلاک ہونے والی ماؤں اور بچوں کے بارے میں سنا تو اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ان بچوں میں سے ایک ایسے بچے کو اپنائیں گے جس کی ماں اب اس دنیا میں نہیں رہی۔انھوں نے بتایا کہ بچی کے والد ہیں لیکن گھر میں بچی کی دیکھ بھال کے لیے اب کوئی خاتون نہیں ہے اس لیے وہ بچی ابھی سے ان کے پاس رہے گی۔ فخرالدین کے مطابق اگلے دو برس کے دوران ان کا کینیڈا جانے کا منصوبہ ہے اور اس سے پہلے وہ بچی کو قانونی طور پر گود لینے کا عمل مکمل کر لیں گے۔فخرالدین جامی کا کہنا تھا ’جب ہم اس بچی کو
اپنے گھر لے کر آئے تو مجھ سے زیادہ میری اہلیہ اس پر خوش تھیں حالانکہ مجھے پتا ہے کہ بچوں کا خیال باپ سے زیادہ ماں رکھتی ہے اور وہ (بچے) مجھ سے زیادہ ان (اہلیہ) کی نیندیں خراب کرے گی۔‘ہسپتال انتظامیہ کے مطابق حملے کے بعد 11 بچوں کو اُن کے خاندانوں کے حوالے کر دیا گیا تھا جبکہ آٹھ بچوں کو اگلے روز یعنی بدھ کو اُن کے خاندانوں کے حوالے کیا گیا۔ یہ ابھی تک معلوم نہیں کہ کتنے بچوں کو
دیگر خاندانوں نے گود لیا ہے۔اس حملے میں ایک اور نوزائیدہ بچی آمنہ کی دونوں پیروں میں گولیاں لگی ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق دائیں پیر میں دو جگہ گولیاں لگنے کی وجہ سے آمنہ کا یہ پیر جسم سے علیحدہ کیے جانے کا خطرہ ہے۔آمنہ کی والدہ نادیہ اس حملے میں ہلاک ہو گئی ہیں۔ اُن کے ایک رشتہ دار حمیداللہ حمیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نادیہ کے اس سے پہلے دو بچے ہیں جن میں
بڑا بیٹا اور چھوٹی بیٹی ہے۔حملے کے بعد دیگر 18 نوزائیدہ بچوں کو ایک اور قریبی ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے آمنہ کو ایک پرائیوٹ ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے۔ حمیدی کے مطابق آمنہ کے متاثرہ پیر کا ایک آپریشن ہوا ہے جبکہ دو اور آپریشن ہونے باقی ہیں۔حمیداللہ حمیدی کا کہنا تھا کہ حملے کے وقت آمنہ کے والد رفیع اللہ ہسپتال کے باہر پانچ گھنٹے تک اس تگ و دو میں مصروف رہے کہ کیسے اپنی بیوی اور
نوزائیدہ بچی کو بچائیں۔’حملہ شروع ہونے کے پانچ چھ گھنٹے بعد تک ہسپتال کے اندر حملہ آوروں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان مقابلہ جاری رہا۔‘بچی کے والد ہسپتال کے باہر ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ دوڑ کرتے رہے مگر کسی نے انھیں ہسپتال کے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب بیشتر افغان شہری یہ توقع کر رہے تھے کہ فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے
معاہدے کے بعد افغانستان میں امن آ جائے گا اور گذشتہ 40 سال سے جاری جنگ اور بد امنی ختم ہوگی۔لیکن کابل ہسپتال پر اس حملے اور اس میں نوزائیدہ بچوں اور خواتین کی ہلاکت نے فروری کے امن معاہدے کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔اس حملے کے بعد اُسی رات افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس کے جوابی بیان میں طالبان نے کہا کہ وہ کسی بھی
حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔اگرچہ طالبان نے اپنے بیان میں افغان حکومت پر امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا لیکن اس بیان کے اگلے ہی دن صوبہ پکتیا کے مرکزی شہر گردیز میں ایک ملٹری کورٹ پر ٹرک حملہ کیا گیا جس میں افغان حکام کے مطابق کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ صدر اشرف غنی کے اُس بیان کے جواب میں تھا جس میں اُنھوں نے طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا تھا۔