لند ن (نیوزڈیسک )محققین کا کہنا ہے کہ طیاروں کی نگرانی کے لیے ٹی وی سگنل ٹاور، ریڈار کا سستا متبادل ثابت ہو سکتے ہیں۔یہ تحقیق ایئر ٹریفک سگنل کا کنٹرول فراہم کرنے والی کمپنی نیٹس اور ان کی شریک کمپنیوں نے کی ہے اور ان کا کہنا ہے موجودہ ٹی وی سگنلز طیاروں کی ٹریکنگ کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ٹی وی سنگل میں ریڈار کے مقابلے ریڈیو سپیکٹرم کا مختلف حصہ استعمال کیا جاتا ہے لیکن دونوں کسی ٹھوس چیز سے ٹکرا کر واپس آ جاتے ہیں۔محققوں کا کہنا ہے کہ مخصوص ریسیور کے استعمال سے انھوں نے 10 ہزار فٹ کی اونچائی تک بیک وقت 30 طیاروں کو ٹریک کیا ہے۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں ابھی بہت کام کیے جانے ہیں۔نیٹس کے انجینیئر نک ینگ نے بتایا: ’لچک اور خدمات کے معیار کے متعلق سوالات کے جواب دینے ابھی باقی ہیں اور ہمیں براڈکاسٹروں سے باضابطہ معاہدہ بھی کرنا ہے تاہم یہ بہت دلچسپ ہے اور آئندہ پانچ برسوں کے دوران ہم اس تصور میں مزید فروغ پر کام کریں گے۔‘اس مطالعے میں لندن کے کرسٹل پیلس میں لگے ایک براڈکاسٹنگ ٹی وی کے ٹرانسمیٹر کا استعمال کیاگیا۔ان میں طیاوروں سے ٹکرا کر آنے والے سگنلز کے سمت کے تعین کے لیے تین مخصوص ریسیورز لگائے گئے۔ ان سگنلز کے حصول میں لگنے والے وقت کا باقی بے روک ٹی وی سگنل سے موازنہ کیا گیا۔اس ’مثلث نما معلومات‘ کی بنیاد پر مختلف طیاروں کے لوکیشن کا پتہ چلایا گیااس کے بارے میں ایک دوسرا تجربہ لیورپول میں کیا گیا جس میں یہ پایا گیا کہ ٹی وی سنگل پر مبنی نظام میں ریڈار کے مقابلے ہوائی چکّی سے کم رخنہ پڑا۔ینگ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’جب چرخی کی پنکھیاں گردش کرتی ہیں تو وہ ایسے مرحلے میں پہنچ جاتی ہیں جو رفتار کی شرح کہلاتی ہیں اور ریڈار ان کی تلاش میں رہتا ہے۔‘ایک ونڈ فارم میں 30 ہوائی چکیاں ہو سکتی ہیں جن کے پر 300 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گردش کرتے ہیں جو کہ طیارے کی رفتار ہوتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ریڈار اسے بھی پکڑ لیتا ہے اور اسے کسی طیارے پر معمول کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ’اس میں عجیب و غریب چیزیں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں لیکن ہمار مشورہ ہے کہ اس قسم کے ٹی سگنلز کے استعمال سے ریڈار میں اس مسئلے کا حل مل سکتا ہے۔‘اس مطالعے میں لندن کے کرسٹل پیلس میں لگے ایک براڈکاسٹنگ ٹی وی کے ٹرانسمیٹر کا استعمال کیاگیا۔انھوں نے کہا کہ ’اس طرح ریڈار کی بجائے ٹی وی سگنل کے استعمال سے پیسے بچائے جا سکتے ہیں اور ریڈیو سپیکٹرم کو دوسرے استعمال کے لیے بچایا جا سکتا ہے۔’راڈار بڑا ہے اور اسے حاصل کرنے اور اس کی دیکھ ریکھ کرنے میں بہت خرچ آتا ہے جبکہ آپ اسے کسی فون کے سر پر لگا دیں اور ایک وسیع علاقے تک اس کے سگنل کو منقسم کر دیں اس کے علاوہ اس میں تیسری پارٹی (براڈکاسٹرز) جو اسے ٹرانسمٹ کر رہی ہے وہ شامل ہے۔‘اس تحقیق کو دفاغی کمپنی تھیلز یو کے اور آر اینڈ ڈی لیب روک مینور نے گذشتہ دو سالوں میں پورا کیا ہے لیکن اس پروجیکٹ کے پس پشت خیال نیا نہیں ہے۔سنہ 1935 میں راڈار کے پیش رو سر روبرٹ واٹسن واٹ نے بی بی سی کے شارٹ ویو ٹرانسمیٹر سے کامیابی کے ساتھ تجربہ کیا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی کام کرتی ہے۔مسٹر ینگ نے کہا: ’کمپیوٹر پراسسنگ کی قوت میں اضافے نے اسے بہت آسان بنا دیا ہے۔ اور گذشتہ دس برسوں میں ہم اس سطح پر پہنچے ہیں کہ ہم ان معلومات کو قابل عمل بنا سکیں۔ تاہم ابھی اس میں تکنیکی اور ضابطے کی روکاوٹیں ہیں۔‘