اسلام آباد( خصوصی رپورٹ :احمد ارسلان)واقعہ کچھ ایسا ہے کہ جب بھی سنتے یا پڑھتے ہیں تو درد ایک نئے انداز میں وارد ہوتا ہے، فضائیں افسردہ سی ہو جاتی ہیں ، بہار خزاں میں تبدیل اور یہاں تک کے خود سے بھی روٹھ جانے کا دل کرتا ہے ۔خزاں بہار پہ چھائی ہوئے ہیں
پیڑ بھی زردغم حسین میں عالم اداس پھرتا ہےجناب رسول کریم ﷺ کے شہزادے حضرت امام حسین کی شہادت کا واقعہ یقیناً کچھ ایسا ہی دردناک ہے مگر جس قدر صبر کی تلقین ہمیں دنیا کےاس عظیم سانحے سے ملتی ہے وہ بے نظیر ہے ۔ حضرت امام حسین ؑ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان کو ہوئی ۔ فاطمہ ؓ کے گھر ننھے دلارے کی خبر سن کر ہادی برحق ﷺ علی المرتضیٰؓ کے گھر تشریف لائے اور اپنے لعل کو گود میں لے کر ان کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہہ کر اپنی زبا ن مبارک ان کے منہ میں دی اور یوں نبیوں کے تاجدار ﷺ کا لعاب دہن ننھے حسین ؑ کی گھٹی بنا ۔ آپ کا عقیقہ پیدائش کے ساتویں دن کیا گیا ۔حضرت امام حسینؑ کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی کہ سن کر ہی رشک آتا ہے ۔ خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ، شیر خدا حضرت علی ابن ابی طالب ، جگر گوشہ رسول ﷺ سیّدہ فاطمة الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے اساتذہ تھے ۔ ایک طرف پیغمبرِ اسلام حضور نبی کریم ﷺ جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؓ جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زہراؓ جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں ، ایسے خوبصورت اور نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ہوئی۔