اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) انٹرنیٹ، اس وقت ٹیکنالوجی سے جڑے کسی بھی فرد کی زندگی کیلئے بے حد اہم ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود بھی دنیا کے بہت سے خطے اور بہت سے افراد ایسے بھی ہیں ، جنہیں ابھی تک انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا صرف ساٹھ فیصد حصہ انٹرنیٹ کی سہولت سے فیضیاب ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی ایسی سہولت ہو جس کی وجہ سے دنیا کے ہر بچے تک انسائیکلوپیڈیا کی سہولت موجود ہو، ہر ڈاکٹر کو اپنی مہارت اور پیشے کے بارے میں تازہ ترین معلومات اور جدید ترین تحقیق تک رسائی حاصل ہو، کسان فصل کاٹنے سے پہلے یہ جان سکیں کہ بارش کب آئے گی تو زندگی یقینی طور پر بے حد آسان ہوسکتی ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر گوگل نے ”پروجیکٹ لون“ شروع کیا تھا۔ اس پروجیکٹ کا اہتمام 2013میں نیوزی لینڈ میں کیا گیا تھا۔ اس کے تحت جنوبی نیوزی لینڈ میں تیس دیوہیکل غبارے چھوڑے گئے تھے۔ گراو¿نڈ سٹیشنز سے جڑے یہ غبارے دراصل وائر لیس سگنل کی مانند ڈیوائس کے حامل تھے جنہیں لون نیٹ ورک کا نام دیا گیا۔ اس آزمائشی تجربے کے شرکا کو خاص قسم کے سم کارڈز دیئے گئے تھے جس کے ذریعے انہوں نے اپنے فونز لون نیٹ ورک سے کنیٹکٹ کئے۔ اس سلسلے میں خلا میں موجود غباروں میں موجود نیٹ ورک کا دائرہ کار بے حد وسیع تھا اور انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے اس کے نیچے موجود تمام افرادکیلئے انٹرنیٹ تک رسائی آسانی تھیے۔ یہ تجربہ کامیابی سے ہمکنار ہوا اور سائنسدان مزید تفصیلی تجربے کے متحمل ہوسکے تاہم بڑے پیمانے پر کرنے کیلئے ماہرین کو غباروں کی ٹریکنگ، ان کی واپسی کا ریکارڈ بھی رکھنا پڑتا اور ماحول کے اعتبار سے ان کے سفر پر نگاہ بھی رکھنا پڑتی۔ جس پر کام کے بعد آخر کار گوگل نے اعلان کیا ہے کہ وہ پروجیکٹ لون کو کمرشل سطح پر چلانے کے قریب ہیں۔ گوگل کا یہ پروجیکٹ بلاشبہ انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی لائے گا جب انٹرنیٹ یوزرز کی تعداد یکدم بہت بڑھ جائے گی اور انٹرنیٹ پر ٹریفک کو کنٹرول کرنے کیلئے کمپنیز کو اپنے سرورز بہترصلاحیتوں کے حامل بنانے پڑیں گے۔