واشنگٹن /اسلام آباد (این این آئی)بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ پاکستانی بیل آؤٹ پیکج کو حتمی شکل دینے کے لیے آئی ایم ایف کا مشن اپریل کے آخر میں اسلام آباد کا دورہ کرے ا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے مجوزہ مذاکرات پر اہم بات چیت میں مصروف ہونے کی وجہ سے بیل آؤٹ پیکج کو حتمی شکل دینے کیلئے وفد کے اسلام آباد آنے میں تاخیر کی رپورٹس کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے پریس ریلیز کے ذریعے مذکورہ اعلان کیا گیا۔
آئی ایم ایف کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے عملے کے درمیان واشنگٹن میں موسم بہار میں کیے گئے مذاکرات تعمیری رہے۔بیان میں کہا گیا کہ حکام کی درخواست پر مذاکرات جاری رکھنے کے لیے آئی ایم ایف کا مشن اپریل کے اواخر میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔رواں ماہ کے اوائل میں وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ تھا کہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے گروپ کی موسم بہار کی ملاقات کے بعد مشن جلد اسلام آباد کا دورہ کریگا۔اس سے قبل پاکستانی میڈیا رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وزیر خزانہ 12 اپریل کو نیویارک گئے تھے جبکہ وزارت خزانہ کے سینئر عہدیداران اور دیگر حکومتی اراکان پر مشتمل ٹیم مزید مذاکرات کیلئے واشنگٹن ہی میں قیام کیا تھا۔11 اپریل کو واشنگٹن میں نیوز بریفنگ میں اسد عمر نے کہا تھا کہ دونوں فریق بیل آؤٹ پیکج پرکم و بیش معاہدے پر پہنچ گئے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ایک یا 2 روز میں مکمل معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف مذاکرات سے جڑے ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کو اب بھی جون سے پہلے معاہدہ مکمل ہونے کی امید ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ بیل آؤٹ پیکج بجٹ کے حوالے سے مدد دے گا۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف حکام نے پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں، ساتھ ہی پاکستان اور چین دونوں سے تحریری ضمانت مانگی ہے کہ آئی ایم ایف کی امداد چین کے قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
مذکورہ ذرائع نے مزید بتانا تھا کہ وزیر خزانہ اسد عمر کا سی پیک پر آئی ایم ایف کے تحفظات سے متعلق بات چیت کے لیے 25 اپریل کو دورہ چین کا امکان ہے اور بین الاقوامی مانیٹری فنڈ بیل آؤٹ پیکج کو حتمی شکل دینے سے قبل وزیر خزانہ کو سننے کا انتظار کرے گا۔علاوہ ازیں دونوں فریق مجوزہ آئی ایم ایف پروگرام کی تفصیل پر ’فائن ٹیوننگ‘ میں مصروف ہیں، پاکستان چاہتا ہے کہ آئی ایم ایف پیکج سے جڑی کچھ شرائط کا جائزہ لے جبکہ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ یہ شرائط پروگرام کی کامیاب تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔
پاکستان نقطہ اٹھاتا ہے کہ اگر یہ حتمی صورت اختیار کرلیتے ہے تو یہ آئی ایم اے ساتھ اس کا 14 واں پیکج ہوگا، تاہم اس کا اعتراض یہ ہے کہ گزشتہ پروگرامز سے منسلک شرائط پر بھی مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوا کیونکہ یہ بہت زیادہ محدود تھیں۔اسلام آباد آئی ایم ایف سے چاہتا ہے کہ پروگرام کو شرائط سے منسلک ہونے کے بجائے طویل مدتی تعمیری اصلاحات پر توجہ رکھنی چاہیے تاکہ اس کی معیشت کی بحالی میں مدد ملے کیونکہ شرائط پر عملدرآمد مشکل ہوگا۔نئے پیکج پر مذاکرات کے دوران پاکستانی وفد نے آئی ایف ایم کو کہا کہ وہ اس پر وعدہ نہیں کریں گے جس پر وہ عمل درآمد نہیں کرسکتے۔
اس بارے میں جب پوچھا گیا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے کتنی رقم ملنے کا امکان ہے تو ذرائع کا کہنا تھا کہ رقم اور پروگرام کا دورانیہ بھی پیکج کی نوعیت پر منحصر ہے، اگر شرائط بہت زیادہ محدود ہوئی تو پاکستان بڑے پیکج کی توقع کرسکتا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے تجویز کردہ کچھ شرائط میں اسٹیٹ بینک کو خودمختار بنانا، مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ، ٹیکس ہدف کو 5 ہزار ارب روپے تک بڑھانا، انکم ٹیکس رعایت کو ختم کرنا، تنخواہوں پر مزید ٹیکس لگانا، قابل ٹیکس ا?مدنی کی رقم کو 12 لاکھ سالانہ سے کم کرکے 4 لاکھ سالانہ کرنا، بجلی اور گیس نقصانات کو کم کرنا، نیپرا اور اوگرا کی پالیسیز میں حکومتی مداخلت نہ ہونا اور بجلی اور گیس ریونیو کے 140 ارب روپے خسارے کو صارفین سے وصول کرنا شامل ہے۔