اسلام آباد (این این آئی)الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 2 اراکین کی آئین کے تحت مقرر کردہ 45 دن کی ڈیڈ لائن ختم ہوگئی ، اس سلسلے میں وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے درمیان مشاورت کا عمل بھی شروع نہیں ہوسکا۔ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرری کے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کا عمل لازمی ہے اور اس کے بغیر اراکین کا تقرر نہیں کیا جا سکتا۔22ویں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 215 (4) میں کہا گیا ہے کہ
کمشنر کے دفتر یا رکن کی آسامی کو 45 دن کے اندر پْر کرنا لازمی ہے۔26 جنوری کو سندھ اور بلوچستان کے اراکین کی ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کمیشن 6 ہفتوں سے نامکمل ہے۔الیکشن کمیشن کے سینئر عہدیدار نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ آنے والے مہینوں میں کمیشن کو چند اہم سرگرمیاں انجام دینی ہیں جس میں بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کنٹونمنٹ میں بلدیاتی انتخابات شامل ہیں جس کے باعث ان دونوں اراکین کی فوری تعیناتی درکار ہے۔انہوں نے کہا کہ تقرریوں کے سلسلے میں اب تک وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کا عمل شروع نہ ہونے پر الیکشن کمیشن کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔آئین کے تحت الیکشن کمیشن ایک چیف الیکشن کمشنر اور چار اراکین پر مشتمل ہوتا ہے جس میں سے ہر رکن کا تعلق ایک صوبے سے ہوتا ہے۔2 اراکین کے دفتر میں تقرر کی نصف مدت مکمل ہونے کے بعد ریٹائرمنٹ کا طریقہ کار 22ویں ترمیم کے ذریعے وضع کیا گیا تاکہ الیکٹورل باڈی کے کام کو مستقل مزاجی سے یقینی بنایا جا سکے۔آئین کا آرٹیکل 215 اپنی ترمیمی شکل میں کہتا ہے کہ کمشنر یا رکن اس آرٹیکل کے تحت دفتر میں آنے کے 5 سال تک اس عہدے پر برقرار رہے گا۔قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے چیف الیکشن کمشنر اور 2 اراکین کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی نئی تقرریوں کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی تھی، 12 رکنی کمیٹی نے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کو چیئرپرسن منتخب کیا تھا لیکن پارلیمانی پینل
اسی وقت عمل کر سکتا ہے جب وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف میں کسی نام پر اتفاق ہو یا دونوں فریقین الگ الگ فہرست ارسال کر دیں۔آرٹیکل 213 اور 218 کے تحت اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد وزیراعظم چیف الیکشن کمشنر یا کمیشن کے اراکین کے انتخاب کے لیے 3 نام میں سے کسی ایک نام کی تصدیق کے لیے فہرست پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتے ہیں۔اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بنائی جانے والی پارلیمانی کمیٹی آدھے اراکین حکومتی بینچر سے منتخب کرتی ہے
جبکہ بقیہ کا انتخاب اپوزیشن جماعتیں کرتی ہیں اور پارلیمنٹ میں ان کی طاقت کی بنیاد پر متعلقہ پارلیمانی لیڈرز انہیں نامزد کرتے ہیں،اگر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق نہ ہو تو قانون کے مطابق دونوں رہنما الگ الگ فہرستیں جائزے کیلئے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے ابھی تک اس سلسلے میں مشاورت کے آغاز کا کوئی عندیہ نہیں ملا، اگر غیر معینہ تعطل کے بعد ایسا ہوتا بھی ہے تو وزیر اعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث دونوں کے درمیان نامزدگیوں پر براہ راست بات چیت کا امکان نہیں اور بہر صورت یہ دونوں اپنے قریبی دوستوں کے ذریعے بالواسطہ مشاورت ہی کریں گے۔