اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پلوامہ واقعہ سے لے کر اب تک جو کچھ ہوا اس میں کون ہارا اور کون جیتا یا پھر بازی برابر رہی ، اس حوالے سے ایک موقر اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں انتخابات سر پر ہیں لیکن پلوامہ میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملے کے بعد انڈیا میں حکومت پر دباؤ تھا کہ وہ چالیس جوانوں کی ہلاکت کا بدلہ لے، اس موقع پر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ جوابی کارروائی کرنے کے لیے مسلح افواج کو مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ بات تقریباً طے تھی کہ اس مرتبہ سٹرائیکس کے لیے فضائیہ کا استعمال کیا جائے گا، سوال کرنے والوں کی تعداد فی الحال بہت کم ہے مگر نریندر مودی کو اس بنیادی الزام کا سامنا ہے اور شاید جب انتخابی مہم باقاعدہ طور پر دوبارہ شروع ہوگی تو اور زیادہ شدت سے ہوگا کہ انھوں نے ایک مشکل الیکشن جیتنے کے لیے اس کارروائی کی اجازت دی تھی۔رپورٹ کے مطابق حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کو سمجھانے کے باقی تمام دوسرے راستے آزمائے جا چکے ہیں، یہ قیاس آرائی ہی ہیں لیکن حکومت اگر یہ کارروائی نہ کرتی تو نریندر مودی سے پھر ان کے سینے کا سائز ضرور پوچھا جاتا مگر فوجی ماہرین کی ایک بہت چھوٹی سی تعداد یہ معلوم کر رہی ہے کہ کیا حکومت نے یہ سوچا تھا کہ اگر بات بڑھ گئی تو کیا ہوگا؟ کیا واقعی کسی کا یہ خیال تھا کہ سرحد پار سے جوابی کارروائی نہیں کی جائے گی اور بات کو اسی طرح دبا دیا جائے گا جیسے ستمبر 2016 میں ہوا تھا؟۔ ان سوالوں کا جواب آسانی سے نہیں ملے گا لیکن اگر بات اب ٹھنڈی ہونا شروع ہوگئی تو ایک دو ہفتے بعد تفصیلات سامنے آنا شروع ہوسکتی ہیں۔ اسی وقت معلوم ہوگا کہ آخر فضائی کارروائی کی اجازت دیتے وقت اس بارے میں کیا سوچا گیا تھا کہ جوہری اسلحے کے استعمال تک نوبت پہنچ سکتی ہے یا نہیں؟۔رپورٹ میں کہا گیا کہ سوال یہ بھی ہے کہ اب تک جو ہوا ہے اس میں کون ہارا اور کون جیتا، یا پھر بازی برابر رہی۔ کہتے ہیں کہ جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، سب ہارتے ہیں، بالا کوٹ میں جس دن بمباری کا اعلان کیا گیا اس دن بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ انتخابات میں اب نریندر مودی کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔ بی جے پی کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ بالا کوٹ میں حملے سے بی جے پی کرناٹک میں 22 سیٹیں جیت جائے گی، دوسری جانب پائلٹ کی زندگی نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں بچا لی ہیں، اگر پائلٹ نہ بچتا تو انتقام کا مطالبہ تیز تر ہو جاتا اور نریندر مودی کے لیے مواقع بھی محدود ہو جاتے۔