حالیہ صدی کے اوائل میں ترکی ایک جدید اسلامی جمہوریت کے طور پر ابھرا۔ موجودہ حکمران جماعت نے 2002 میں حکومت سنبھالنے کے بعد ایسی اصلاحات متعارف کرائیں جو یورپی یونین کے جمہوری پیمانوں پر پوری اترتی تھیں اور ملک میں حقوق انسانی کا ریکارڈ بہتر ہونا شروع ہو گیا۔ بد قسمتی سے یہ جمہوری روایات زیادہ دیرپا ثابت نہ ہو سکیں۔
چند ہی برسوں میں یہ عمل رک گیا اور پھر چند برس بعد 2011 میں تیسری انتخابی فتح کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اور موجودہ صدر نے ایک مکمل یو ٹرن لے لیا۔ مطلق العنانیت کی جانب چلے جانے کی وجہ سے اب ترکی دیگر اسلامی ممالک کے لیے قابل تقلید مثال نہیں رہا۔ بعض حلقوں کے لیے اردگان کی زیر قیادت ترکی کی منفی مثال جمہوری روایات اور اسلام میں ہم آہنگی نہ ہونے کی دلیل ہے۔ مگر یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں۔ بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھنے کے باوجود اردگان حکومت اسلامی روایات سے مکمل پہلو تہی پر مبنی ہے۔ یہ بنیادی روایات لباس کے استعمال یا مذہبی نعروں پر مبنی نہیں ۔ ان میں قانون کی حکمرانی کا احترام، عدلیہ کی آزادی، حکمرانوں کا احتساب اور ہر شہری کے حقوق اور آزادی کی حفاظت شامل ہے۔ ترک جمہوری تجربے کو حالیہ دھچکا اسلامی روایات پر عمل کی وجہ سے نہیں بلکہ ان سے انحراف کی وجہ سے لگا ہے۔ ترک معاشرہ مختلف ا لنوع رہا ہے۔ سنی یا علوی، ترک، کرد یا دیگر نسلوں کے افراد، مسلمان، غیر مسلم، دین پر کاربند یا سیکولر طرز زندگی کے حامل ترک شہری مختلف نظریات، فلسفوں اور اعتقادات کے حامل ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں سب لوگوں کو ایک جیسا بنانے کی کوشش کرنا نہ صرف کار لا حاصل ہے بلکہ انسانیت کی توہین بھی ہے۔
ایسی آبادی کے لیے اشتراک عمل پر مبنی یا جمہوری طرز حکمرانی ہی واحد حل ہے جہاں کسی گروہ، اکثریت یا اقلیت کو دوسروں پر امتیاز حاصل نہ ہو۔ یہی کچھ شام، عراق اور اس خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی کہا جا سکتا ہے۔ ترکی اور دیگر ممالک میں آمرحکمرانوں نے معاشرے کے اندر موجوداختلافات سے فائدہ اٹھایا اور مختلف گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کیا تاکہ طاقت کے مراکز پر کنٹرول برقرار رکھا جا سکے۔
چاہے ذاتی اعتقادات کوئی بھی ہوں لوگوں کو عالمی انسانی حقوق اور آزادی کے نام پر مل کر کھڑا ہونا چاہیے اور اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ان لوگوں سےجمہوری انداز میں اختلاف کر سکیں جو ان کے حقوق کو غصب کرنے والے ہوں۔ ظلم کے خلاف اظہار ناراضی ایک جمہوری حق ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شہری ذمہ داری اور ایمان والوں کے لیے ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ قران کہتا ہے کہ لوگوں کو ناانصافی کے خلاف خاموش نہیں رہنا چاہیے:
’’ اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو خواہ (اس میں) تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ـ (4:135)کسی شخص کااپنے اعتقادات کے مطابق یا پھر ایسے نظریات پر زندگی گزارنا جہاں دوسروں کا کوئی نقصان نہ ہو اور جہاں بنیادی انسانی آزادیوں خصوصی طور پر آزادی اظہار کا حترام ہو، حقیقی معنوں میں ایک شخص کو انسان بناتا ہے۔ آزادی رحیم و کریم رب کی جانب سے دیا گیا حق ہے جسے کوئی بھی شخص یا حکمران سلب نہیں کر سکتا۔
اپنے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے بغیر زندگی گزارنے والے شخص کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ حقیقی انسانی زندگی گزار رہا ہے۔ سیاسی اسلام کے حامیوں کے نقطہ نظر کے بر عکس اسلام کوئی سیاسی نظریہ نہیں بلکہ ایک دین ہے۔ اس کے کچھ اصول حکمرانی سے متعلق بھی ہیں لیکن ان کا تناسب مجموعی اسلامی اصولوں کے پانچ فیصد سے زائد نہیں۔ اسلام کو محض ایک سیاسی نظریے کے طور پر محدود کر دینا اس کے مزاج کے خلاف ایک جرم عظیم ہے۔
ماضی میں سیاست اور ریاست کے اسلامی پہلو پر لکھنے اور بولنے والوں نے تین غلطیاں کی ہیں: اول یہ کہ انھوں نے مسلمانوں کے تاریخی تجربات کو اسلامی روایات کے بنیادی مآخذ ؛ قران مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کے ساتھ ابہام کا شکار کر دیا ہے۔ مسلمانوں کے تاریخی تجربات اور ان حالات میں اسلامی فقہا کی جانب سے دیے گئے فیصلوں کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے اور انھیں دین کے بنیادی مآخذ جیسا مقام نہیں دیا جا سکتا۔
دوسرا یہ کہ چند قرانی آیات یا احادیث پاک کو اپنے نقطہ نظر کو جائز ثابت کرنے کے لیے استعمال کرنا اور اس نقطہ نظر کو دوسروں پر مسلط کرنا۔ قران و سنت کی حقیقی روح کو صرف مجموعی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے اور رضائے الہیٰ کے حصول کی مخلصانہ نیت رکھتے ہوئے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔تیسرا یہ کہ کچھ لوگوں نے یہ غلط نتیجہ اخذ کر لیا کہ جمہوریت اسلام کی بنیادی روح کے خلاف ہے کیونکہ اسلام صرف اللہ تعالیٰ کی حقیقی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے جبکہ جمہوریت کی بنیاد عوام کی حاکمیت پر ہے۔
کوئی صاحب ایمان یہ شک نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا حقیقی مالک ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسانی خصوصیات جیسے سوچ، نیت اور ارادہ انسانوں کے لیے رب کے عظیم تر منصوبے کا حصہ نہیں۔ لوگوں کو آزادی دینے کا مطلب یہ نہیں کہ رب کے اختیار میں کوئی کمی ہو جائے گی بلکہ اس کا مطلب حقوق و فرائض ایک آمر سے لے کر دوبارہ لوگوں تک پہنچانا ہے جو انھیں اللہ کی جانب سے عطا کیے گئے ہیں۔
ریاست انسانوں کا قائم کردہ ایک ایسا نظام ہوتا ہےجس کا مقصد ان کے بنیادی حقوق اور آزادی کی حفاظت کرنا اور امن و انصاف کا قیام ہوتا ہے۔ ’’ریاست‘‘ بذاتِ خود ایک مقصد نہیں بلکہ ایک ذریعہ ہے جس کے ذریعے لوگ اس دنیا اور آخرت میں خوشیوں کا حصول کر سکتے ہیں۔ ریاست کو اصولوں اور روایات سے ہم آہنگ کرنا ان کی پیروی کرنے والوں کی ہم آہنگی کے مترادف ہے جو سسٹم کی تشکیل انھیں اصولوں پر کرتے ہیں۔ چنانچہ ’’اسلامی ریاست‘‘ کی اصطلاح ایک کھلا تضاد ہے۔ اسی طرح چونکہ اسلام میں کوئی کلیسائیت جیسا نطام نہیں۔
اس لیے ملایئت اسلامی روح کے خلاف ہے۔ اس طرح ریاست دراصل ایک ایسا معاہدہ ہے جو انسانوں کے درمیان، انسانوں ہی کی مدد سے کیا جاتا ہے اور یہ نہ تو اسلامی ہوتا ہے اور نہ ہی مذہبی۔ جمہورتیں ہر شکل اور حجم کی ہوتی ہیں۔ جمہوریت کی مثالی صورت جو ان شکلوں میں ظہور پذیر ہوتی ہے کہ جہاں کسی گروہ کو دوسروں پر فوقیت حاصل نہیں ہوتی یہی دراصل اسلام کا آئیڈیل بھی ہے۔ یکساں شہریت کا اصول ، ہرانسان کی عظمت کو پہچاننے اور اللہ کی بہترین مخلوق کی حیثیت سے اس کا احترام کرنے جیسا ہے۔
اشتراک پر مبنی نظام خواہ وہ جمہوریت ہو یا ری پبلک دیگر نظامہائے حکومت خواہ وہ بادشاہت ہو یا چند سری حکومت، ان کے مقابلے میں اسلام سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ ترک حکومت کی موجودہ تصویر ایک جمہوریت کی بجائے امر شاہی یا چند سری حکومت زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ یہ کس طرح غلط سمت میں چل پڑی؟صدر اردگان نے اس ترکی کو خراب کر دیا ہے جو کبھی ایک شاندا ر جمہوریت تھی۔ ریاست کو قبضے میں لے لیا گیا۔
کاروبار ضبط کر لیے گئےاور اپنے ساتھیوں کو نوازا گیا۔ طاقت پر قبضہ برقرار رکھنے کی نیت سے بڑی تعداد میں لوگوں کی پشت پناہی کے حصول کی خاطر اس نے مجھے اور حذمت تحریک کے حامیوں کو ریاست کا دشمن قرار دے دیا اور ہم پر ماضی قریب میں ملک میں ہونے والے ہر منفی واقعے کا الزام دھر دیا۔ یہ قربانی کا بکرا بنانے کی واضح مثال ہے۔صدر اردگان کے تحت حکومت نے مجھے اور سینکڑوں ہزاروں دیگر لوگوں ، تمام ناقدین کو نشانہ بنایا گیا مگر اس سب کا خصوصی ہدف پر امن حذمت تحریک تھی۔
ماحولیاتی آلودگی پر احتجاج کرنے والے، صحافی، ماہرین تعلیم، کرد، علوی، غیر مسلم اور چند سنی گروہ جو اردگان کے اقدامات کے ناقد تھے ، ان سب کو اس کے سیاسی ایجنڈے کا نشانہ بننا پڑا۔ ان لوگوں کی زندگیوں کو برطرفی، کاروبار کی ضبطگی، جیل اور تشدد کے ذریعےتباہ کر کے رکھ دیاگیا۔ مسلسل زیادتیوں کی وجہ سے حذمت تحریک کے کارکنان نے فرانس سمیت پوری دنیا میں پناہ حاصل کی۔
نئے شہریوں کی حیثیت سے انھیں ان معاشروں کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے اور ان ممالک میں متحرک کردار ادا کرنا چاہیے اور یورپ میں اسلام کی انتہا پسندانہ تشریحات کے پھیلاو کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے مسائل کے حل میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ترکی میں تعلق کے جرم میں گرفتاریوں کی مہم جاری ہے۔ اس مہم کے شکار افراد کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
دو لاکھ سے زائد حراست میں لیے گئے اور اسی ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر کے جیلوں میں رکھا گیا۔ سیاسی طور پر انتقامی کارروایئوں کے شکارلوگوں کو ملک سے باہر جانے کے بنیادی حق سے بھی محروم کر دیا گیا کیونکہ ان کے پاسپورٹ منسوخ کر دیے گئے۔ 1923 کے بعد سے فوجی بغاوتوں کے باعث مایوسی کےباوجود ترکی جمہوریت کے راستے پر گامزن رہا ہے ۔
اردگان کے طرز حکومت کے باعث ترکی کا شمار اب ان ملکوں میں ہونے لگا ہے جو آزادیوں کا گلا گھونٹنے اور جمہوریت پسندوں کو جیلوں میں ڈالنے کے لیے مشہور ہیں۔ حکمران طبقہ جمہوری تعلقات سے ذاتی فوائد حاصل کرنے، سرکاری افراد اور حکومتی مشینری کو ہراسانی کے لیے استعمال کرنے اور دنیا بھر میں حذمت تحریک کے کارکنان کے اغوا کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں اس قسم کی زیادتیوں کے سامنے ترک عوام اپنے جمہوری مطالبات حکمرانوں تک پہنچانے میں نسبتاَ غیر متحرک رہے ہیں۔ معاشی استحکام کی فکر اس قسم کے رویے کی وجہ ہو سکتی ہے۔لیکن آج اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو اس کی ایک تاریخی وجہ بھی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ جمہوری طرز حکومت ترکی کا ایک آئیڈیل رہا ہے، جمہوری روایات کبھی بھی ترک معاشرے میں جڑیں نہیں پکڑ سکیں۔
ایک مضبوط حکمران اور ریاست کی اطاعت تعلیمی نصاب کا اہم ترین حصہ رہے ہیں۔ ہر دہائی میں ہونے والی فوجی بغاوتوں نے جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا۔ شہری بھول گئے کہ ریاست کا قیام عوام کے لیے ہوتا ہے نہ کہ اس کے بر عکس۔ یہ بات قابل بحث ہے کہ اردگان نے اس کلی نفسیات کا فائدہ اٹھایا۔ ترک جمہوریت موجودہ قیادت کی وجہ سے کومے کی حالت میں ہے مگر میں پر امید ہوں۔ ظلم بہت زیادہ عرصے تک نہیں چلتا۔
میں سمجھتا ہوں کی ترکی ایک دن جمہوری رستے پر واپس لوٹے گا۔ تاہم جمہوریت کو جڑ پکڑنے اور قائم رہنے کے لیے بہت سے اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے تعلیمی نصاب پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ اسکول کی ابتدائی جماعتوں میں تمام شہریوں کے یکساں حقوق اور بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کے متعلق پڑھایا جانا چاہیے تاکہ وہ بڑے ہو کر ان حقوق کے نگہبان بن سکیں۔
دوسرا یہ کہ ایک ایسا آیئن درکار ہے جو کسی بھی اکثریت یا اقلیت کو غلبہ قائم نہیں کرنے دے اور ہر قسم کے حالات میں ان بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کرے جو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر میں درج ہیں۔ سول سوسائیٹی اور آزاد میڈیا کو ترقی کے لیے آئینی تحفظ حاصل ہو اور وہ ریاستی طاقت کے سامنے توازن قائم رکھ سکیں اور تیسرا یہ کہ رائے عامہ ہموار کرنے والے اپنے قول و فعل کے ذریعے جمہوری روایات پر زور دیں۔
ترکی آج ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں جمہوریت اور حقوق انسانی کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک مسلم اکثریتی ملک میں یورپی یونین کے معیارات کے مطابق جمہوریت قائم کرنے کا تاریخی موقع گنوا چکے ہیں۔ کسی ملک کے حکمران دودھ پر ملائی کی طرح ہوتے ہیں۔ ملائی کے خالص ہونے کا دارومدار اس کے نیچے موجود دودھ پر ہوتا ہے۔ ایک معاشرے کے حکمران ، ممکنہ طور پر کچھ حد تک غلطیوں یا تاخیر کے ساتھ اس معاشرے کے اعتقادات اور روایات کا آیئنہ ہوتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ مسلم اکثریتی ممالک کا موجودہ تلخ تجربہ اس مشترکہ فہم و فراست کا سبب بنے گا جو ایسے جمہوریت پسند حکمرانوں اور حکومتوں کے قیام کا باعث ہو گا جو نہ صرف شفاف اور منصفانہ انتخابات کرائیں گے بلکہ تمام بنیادی حقوق اور آزادیاں بھی بحال کریں گے۔